Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 423

غلام

بچّہ بچہ جانتا ہے کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ کولمبس اطالوی تھا اور اسپین کے حکمران خاندان کی نوکری میں رہا تھا۔جہاز رانی اور سیاحت کا شوقین تھا۔ کولمبس کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے اسپین کے بادشاہ فرڈینانڈ دوئم نے اسے جہازرانی کی اجازت کے علاوہ کافی مراعات سے نوازا ہوا تھا۔کولمبس نے انڈیا کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوا تھا اور وہ انڈیا جانے کے لئے بے چین تھا لیکن اس زمانے میں پانی کے جہاز سے انڈیا کا سفر بہت طویل تھا اور کولمبس کا خیال تھا کہ بحر اٹلانٹک کو سیدھا عبور کرتے ہوئے شارٹ کٹ سے انڈیا پہونچے لیکن یہ بڑا جان جوکھوں کا کام تھا جہاز کے ڈوب جانے اور انسانی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ تھا لہذا کولمبس نے جب اپنا پلان بادشاہ کے سامنے رکھّا اور اس نے انڈیا جانے کا یہ مقصد بھی بتایا کہ ہم انڈیا سے تجارت بھی کرسکتے ہیں کیونکہ اس زمانے میں انڈیا کے مصالحہ جات ، اناج جڑی بوٹیوں اور کپڑے کی بڑی دھوم تھی تو فرڈینانڈ نے فورا” ہی انکار کردیا اور اسے ایسا کرنے سے باز رہنے کو کہا لیکن کولمبس اپنی کوشش میں لگا رہا کیونکہ اسے بادشاہ سے بڑے جہاز بھی درکار تھے۔اس کا جنون دیکھتے ہوئے ملکہ ازابیلا نے فرڈینانڈ کو کسی طرح راضی کرلیا۔ کولمبس کو دو بڑے جہاز فراہم کئے گئے۔کولمبس انڈیا تو نا پہونچ سکا لیکن ایک نامعلوم مقام پر پہونچ گیا جس کے بارے میں باقی دنیا کو کوئی علم نہیں تھا کیونکہ کبھی کوئی جہاز اس راستے پر نہیں آیا تھا یہ ایک جزیرہ تھا جہاں ننگ دھڑنگ جنگلی انسان رہا کرتے تھے۔یہ وہ جزیرہ تھا جسے آج امریکہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔کولمبس کا خیال تھا کہ وہ شائید انڈیا ہی کے کسی غیر آباد علاقے میں پہونچا ہے اور جب اس کا سامنا ننگ دھڑنگ انسانوں سے ہوا تو اس نے ان کو انڈین ہی سمجھا اور اسی مناسبت سے یہ لوگ ریڈ انڈین کہلائے۔یہ ایک الگ اور کافی طویل داستان ہے بہرحال کولمبس چار مرتبہ یہاں آیا اور اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی لایا جنہوں نے یہاں رہنے کی ٹھانی ۔کولمبس اور اس کے ساتھ آنے والے لوگوں کے یہاں پہونچنے زمینوں پر قبضے اور کالونیاں قائم کرنے کے بعد ہی مستقبل میں نو آبادیاتی نظام کی بنیاد پڑی۔ آگے چل کر افریقہ،ایشیائ اور عرب میں انگریزوں نے نو آبادیاتی نظام کے تحت قبضے کئے۔ کولمبس کے یہاں آنے کے بعد آہستہ آہستہ اس سرزمین پر یوروپ کے دوسرے ممالک سے لوگ آنا شروع ہوگئے لیکن یہاں ان کو ریڈ انڈین کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا بظاہر یہ لوگ ننگ دھڑنگ اور جنگلی نظر آتے تھے لیکن بنیادی طور پر بہادر قوم تھے یوروپین کا خیال تھا کہ وہ آسانی سے ان کو قابو میں کرلیں گے لیکن ریڈ انڈین نے اپنی زمین پر ان لوگوں کا قبضہ برداشت نہیں کیا اور اعلان جنگ کردیا یوروپین کے پاس اسلحہ تھا بندوقیں تھیں جب کے ریڈ انڈین کے پاس صرف تیر کمان اور لکڑی کے نیزے بھالے تھے ان کو معلوم تھا کہ وہ مقابلہ نہیں کرسکتے اور ایک ایک کرکے مارے جائیں گے لیکن انہوں نے مرجانا پسند کیا لیکن غلام بننا پسند نہیں کیا اپنی زمین کی حفاظت کے لئے لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے لیکن جنگ جاری رکھی۔یوروپین نے خود ہی تھک ہار کر ان سے معاہدے کی درخواست کی جس کے نتیجے میں بے شمار قبائل اپنے علاقوں میں پرانے انداز میں رہتے ہیں جہاں امریکن حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ کچھ قبائل امریکن شہری تو ہیں لیکن کسی قسم کا ٹیکس امریکن حکومت کو نہیں دیتے ہیں۔اس کے نتیجے میں امر یکہ کی کئی ریاستوں میں ان کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ ابھی بھی آزادی سے رہتے ہیں ہار نہیں مانی اور ابھی تک غلام بننا پسند نہیں کیا۔دوسری قوم سیاہ فام قوم تھی جن کو امریکن افریقہ سے پکڑ کر زنجیروں سےباندھ کر اور پنجروں میں ڈال کر لائے تھے یہ لوگ سفید فام لوگوں سے طاقت میں دگنے تھے لیکن بزدل تھے یہ ریڈ انڈین کی طرح بہادر نہیں تھے کیونکہ افریقہ کوئی چھوٹی سی جگہ نہیں تھی افریقہ بہت بڑا تھا ان کے پاس اسلحہ بھی تھا ایک بہت بڑی تعداد میں افریقن وہاں رہتے تھے کیوں نہیں ان لوگوں نے مزاحمت کی کس طرح پکڑ پکڑ کر لے جانے دیا ساری قوم اگر مقابلے کے لئے کھڑی ہوجاتی تو اتنا بڑا ظلم کس طرح ہوسکتا تھا لیکن بزدل لوگ تھے غلام بننا پسند کیا اور ایک زمانے تک غلام بنے رہے۔پھر ان میں کچھ بہادر لوگ کھڑے ہوئے جن میں ایک ڈاکٹر لوتھر کنگ تھا جسے اپنی جان بھی دینا پڑی تب سیاہ فام کو آزادی ملی لیکن ابھی بھی بہت سے سیاہ فام سر جھکا کر ہی رہتے ہیں۔تیسری قوم انڈیا میں رہتی تھی انڈیا اتنا بڑا ملک تھا کہ تین چار حصّے ہونے کے بعد بھی ایک بڑا ملک ہے یہاں تمام مذاہب کے لوگ رہا کرتے تھے بلکہ ابھی بھی رہتے ہیں ،انگریز تجارت کے بہانے آیا اور ایک اتنے بڑے ملک پر آسانی سے قابض ہوگیا اور چند لوگوں نے پوری قوم کو غلام بنالیا۔ حیرت کی بات ہے یہ کس طرح سے ہوا اتنا بڑا ملک اتنی بڑی قوم کیسے انگریزوں کی غلامی میں آگئی۔تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو چند ایک لوگ ہی یا کچھ گروپ بغاوت کرتے نظر آئے 1857 کی جنگ آزادی بھی لڑی لیکن یہ کچھ گروپ ہی تھے سختیاں بھی جھیلیں جیلیں کاٹیں لیکن بغاوت کا علم بلند رکھا اور یہ سب اس قوم کے لئے ہورہا تھا جو اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود غلام بنے ہوئے تھے۔اگر اس وقت ساری قوم جان کی پرواہ کئے بغیر انگریزوں سے مقابلے کے لئے ڈٹ جاتی تو انگریز کی کیا مجال تھی جو سو سال انڈیا میں ٹک جاتا۔لیکن غلامانہ ذہنیت کا کیا ہوسکتا ہے اور یہ غلامانہ ذہنیت ورثے میں پاکستان تک آئی۔یہاں لوگ کسی کا غلام بنے بغیر اپنے آپ کو ادھورا سمجھتے ہیں۔غلامانہ ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ لوگ ہمارا ہی حق مار کر ہمارے ہی پیسے چراکر جب زرداری۔نواز اور ملک ریاض بن جاتےہیں تو ہم ہی ان کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہوجاتے ہیں آج نظر آتا ہے کہ اسّی فیصد قوم غلام بنے رہنے پر فخر محسوس کرتی ہے۔آزادی صرف بہادر قوموں کر ہی ملتی ہے اور غلامی بزدل قوموں کا مقدّر ہے۔ زرا غلاموں کے گروپ دیکھئے۔ایک گروپ زرداری کے ساتھ ہے ایک نواز شریف کے ساتھ ایک الطاف کے ساتھ اور جو ان سے علیحدہ ہوئے وہ بھی چھوٹے چھو ٹے گروپوں میں غلاموں کے غلام بن گئے ،کچھ ملک ریاض کے بھی غلام میڈیا کی شکل میں ہیں ،کچھ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ۔اور یہ سب اس غلامی پر بہت خوش ہیں۔جب کے ان کے آقاوں کے مکر و فریب کا یہ عالم ہے کہ ملک بننے سے لے کر اب تک ملک کی خدمت کرنے کا دعوی’ کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے راہنما آج بھی ملک کے لئے جان دینے کو تیّار ہیں اور خدمت کے لئے ابھی بھی قطار لگائے کھڑے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ سب خدمت ہی کررہے ہیں تو ابھی تک ملک بدحال کیوں ہے کیا خدمت بغیر حکومت ملے نہیں ہوسکتی تھی۔اگر یہ دعوی’ کرتے ہیں کہ یہ مسلسل قوم کی خد مت کررہے ہیں تو وہ کون سی خدمت ہے جو آج تک نظر نہیں آئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں