دوست ۔ متاع خاص 405

فرائض کا عالمی دِن

گزشتہ کئی سالوں سے ”مارچ 8 “ کا دن عورتوں کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جارہا ہے جس کا واویلا مچانے کے لئے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں، پرائیویٹ ادارے، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر پوری تندہی سے اپنا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں عورتوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکومت کے جاری کردہ فنڈ کے استعمال کی تجاویز زیر بحث ہوتی ہیں اور کہیں عورت کے حقوق کی آڑ میں ذاتی مفادات کے لئے قراردادیں پیش کرنے کا عمل نظر آتا ہے۔ ہر سال کئی بل ایوان کے سامنے قانون سازی کے لئے پیش کئے جاتے ہیں بسا اوقات ایک طویل بحث و مباحثہ کے بعد وہ بل قانون کا لازمی حصہ بن جاتے ہیں اور عوام انہیں تسلیم کرنے کے بعد سکھ کا سانس لیتے ہیں اور یہ سوچ کر سکون کی چادر تان کر لمبی نیند سو جاتے ہیں کہ اب عورت کی ناموس سربازار رسوا نہیں ہوگی۔ عورت کو اس کا حق ملے گا۔ وہ ہر جگہ عزت کا تاج پہن کر فخر سے سربلند ہو کر معاشرہ میں اعلیٰ مقام حاصل کرے گی اس کے حقوق کی پاسداری کی جائے گی۔ دنیا اس کو اس کا جائز مقام دے گی لیکن کوئی نہیں جانتا یہ وعدے، یہ قانون یہ قراردادیں سب کاغذی کارروائی کی طرح ہیں۔ کاغذ پہ جو بھی لکھا جائے وہ بالاخر مٹ جاتا ہے۔ بات تو تب بنتی ہے جب صنف نازک کے حقوق کو فرائض سے اونچا مقام دیا جائے۔ دونوں کو برابر انصاف کے ترازو میں تولا جائے لیکن ایسا ہر گز کبھی نہ دیکھنے میں آیا نہ سننے میں، حقوق سے زیادہ فرائض کا واویلا مچایا گیا اس کی قسمت میں دینے سے زیادہ اس سے بہت کچھ حاصل کرنے کی بات کو تقویت دی گئی جب پیدا ہوئی تقسیم کا عمل قربانی کا سبق اس کی سرشت میں ڈال دیا گیا۔
بیٹی بنی تو باپ کی عزت کی محافظ ٹھہرائی گئی، بہن بنی تو والدین کے گھر بھائی بہنوں کی خدمت سے مشروط کی گئی، رخضت ہو کر جب شوہر کے گھر گئی تو ایک نئے خاندان کی بنیاد کے فرائض کو کماحقہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی اور جب ماں بنی، پیروں تلے جنت کی وارث کی ضمانت بنی تو لاتعداد قربانیاں، آرزوﺅں، خدمتوں کے سفر میں آبلہ پا سر پر کفن باندھے صبح سے شام تک مصروف عمل رہتی ہے۔
خواتین کا عالمی دن حقوق کا عالمی دن نہیں بلکہ فرائض اور خدمت کا عالمی دن ہونا چاہئے اس کی عظمت کو سلام پیش کرنے اس کی الفاظ کی صورت میں نہیں بلکہ عملی صورت میں تعریف کرنے کا دن منعقد ہونا چاہئے۔ کیونکہ عورت اس “Tea Bag” کی مانند ہے جسے کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیا جائے تو اس کا رنگ بدل جاتا ہے۔ یہ ابلتا پانی اس کی قربانی، خدمت محنت کی مثال ہے، مہر سے لحد تک ایک سپاہی کی طرح ہر لمحہ حالات کا مقابلہ جانفشانی سے کرنے والی عورت حقوق کا چشمہ اس وقت اتار پھینکتی ہے جب وقت اور مسائل اسے فرائض کی بھٹی میں جلنے کے لئے چھوٹ دیتے ہیں یہی آگ پھر اسے کندن بنا ڈالتی ہے۔ اس لئے اس کا نام صنف نازک تو یونہی رکھ دیا گیا دراصل وہ ایسا فولادی قلعہ ہے جس کے حصار میں ایک بچہ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک محفوظ ہو کر جینا چاہتا ہے اس وقت وہ عورت جس روپ میں بھی ہو فرائض کی جنگ لڑتی ہے۔ میں نے بہت سی ایسی خواتین دیکھی ہیں بلکہ شاید تمام عورتیں ہی ایسی ہیں جن کے دل اندر سے نہایت خوبصورت ہیں۔ جو کھل کر جینا چاہتی ہیں لیکن وقت اور حالات ان کے دل کی مستی کو ان کی شوخ آرزوﺅں کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ ان کے لئے زندگی عذاب مسلسل بن جاتی ہے پھر یا تو وہ اللہ والیاں بن جاتی ہیں یا پھر دنیا والیاں۔
کہا جاتا ہے۔ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، پہلے ماں باپ کا گھر جس کو وہ چھوڑ کر دوسرے گھر جاتی ہے، پھر شوہر کا گھر جس پر اس کا حق نہیں اس کے لئے تو فرائض کی لمبی فہرست ہے جسے اس کو مکمل کرنا ہے گویا یہاں بھی اس کا کچھ اپنا نہیں ہے۔ لیکن سمجھنے والے شاید سمجھ جائیں کہ عورت کے بغیر کوئی گھر، گھر نہیں، نہ ماں باپ کے گھر میں شوخ چنچل، قہقہوں کی گونج مکمل سنائی دیتی ہے اور نہ شوہر کے خاندان کی تکمیل ہو پاتی ہے۔ اس لئے عورت کو اعلیٰ مقام تک لے جانا اس کی اپنی ذات پر منحصر ہے۔ اس کی خدمت، قربانی، محنت، لگن، ہی اسے حقوق و فرائض کی جنگ میں جیت سے ہمکنار کراسکتی ہے۔ کبھی ایسا لیکن نہیں ہوا کہ ایک بچہ گھر میں داخل ہو اور یہ نہ کہے ”ماں جی“ آپ کہاں ہیں۔ پہلا لفظ اس کی زبان سے یہی نکلتا ہے، تکلیف میں ہو تو باپ سے زیادہ ماں کو یاد کرتا ہے۔ دعا کے لئے درخواست کرنی ہو تو ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے ”ماں جی دعا کریں“۔ پھر ایسے مقام پر کیا حقوق اور کیا فرائض۔ انہی فرائض کے ادھیڑ بن میں حقوق جیت جایا کرتے ہیں۔ اس لئے عورت کسی بھی روپ میں ہو، عمر کے کسی حصے میں بھی ہو، دعائیں کرنے والی ہو، خدمت کرنے والی ہو، خاندانوں کو آپس میں محبت کی ڈور سے باندھ کر رکھنے والی ہو تو ایک خاندان کیا اس کی نسلیں تک سنور جاتی ہیں۔ اس لئے کوئی ایک دن عورت کے حقوق کے لئے مختص نہیں، پوری زندگی اس کے آگے ہے جس طرح چاہے گزارے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں