۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 315

فضل ربیّ؟

آج فیس بک پر ایک مسجد میں منتظمین کی طرف سے ایک ایسی ”سہولت“ فراہم کی گئی ہے جسے دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا کہ ہم اخلاقی پستی میں کس طرح گر چکے ہیں کہ انہیں اگر دنیا دیکھے تو یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ کیا وہ قوم جو اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ ہمیں پہلا سبق کی امانت، دیانت اور شرافت کا ہی دیا گیا ہے۔ ہمارے حضور جب تشریف لائے اور مشرکین اور کفار کے سامنے دین اسلام کو متعارف کرانے کا فریضہ انجام دینے کا آغاز کیا تو یہ نہیں فرمایا کہ میں نمازیں پڑھتا ہوں، روزے رکھتا ہوں، زکوٰة دیتا ہوں یا حج پر حج کرتا ہوں بلکہ فرمایا کہ کیا میں صادق ہوں، لوگوں نے کہا کہ آپ کی صداقت کی دنیا گواہی دیتی ہے، فرمایا کیا دیانت دار ہوں، لوگوں نے کہا کہ آپ سے بڑھ کر کوئی دیانت دار نہیں ہے، فرمایا کہ کیا امین ہو، مجمع نے کہا کہ آپ سے بڑھ کر امانت دار آج تک نہیں دیکھا۔ یہ تھی وہ باتیں جو آپ نے اسلام کو متعارف کرنے سے قبل لوگوں سے گواہی لے لی کہ وہ صادق بھی ہیں، امین بھی ہیں اور دیانت دار بھی ہیں گویا کہ مذہب کی بنیاد طے کردی گئی کہ محض نمازیں، روزے، زکوٰة اور حج ہی کافی نہیں ہے بلکہ لوگوں کے ساتھ اخلاقی رویوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے بغیر ہر عبادت بے معنی ہے۔
آج جب ہم اپنی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم ان بنیادی شرائط کو فراموش کر چکے ہیں جو آج دنیا کی ہر مذہب قوم اور مذاہب کے لوگوں کا بنیادی عمل ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ قوموں میں اعلیٰ مراتب پر فائض ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس پر مذہب کا لیبل نہیں لگاتے بلکہ اسے انسانیت کا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں یا کہ وہ ان اعمال پر عمل کرے کسی پر احسان نہیں کررہے بلکہ اسے انسانی شرف سمجھتے ہیں۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف جو آج کا موضوع ہے۔ مسجد کے دروازے پر منتظمین نے دیوار کے ساتھ ایسے تالے بڑی تعداد میں لگائے ہیں جیسے کہ سائیکلوں کی حفاظت کے لئے لگائے جاتے ہیں ان تالوں کو نمازیوں کی چپلوں کو چوروں سے بچانے کے لئے لگایا گیا ہے تاکہ نمازیوں کی توجہ جوتوں اور چپلوں کے بجائے نماز کی طرف ہو اس سے قبل مساجد میں سوفٹ ڈرنکس کے استعمال شدہ ڈبوں کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں کوئی نہ لے اُڑے۔ آج ہم اخلاقی گراوٹ کی حدیں پار کر چکے ہیں اور یہ تصویر پوری قوم کی عکاسی کررہی ہے جہاں مساجد میں خطیب حضرات مخالف مکتبہ فکر کے خلاف زہر اُگلنے اور فتویٰ لگاتے نظر آتے ہیں، وہ لوگوں کو اپنے علاوہ دوسروں کو کافر ثابت کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور تو لگاتے ہیں مگر لوگوں کو ان بنیادی باتوں کی طرف متوجہ نہیں کرتے جس پر عمل کرکے مذہب کی اصلی روح تک پہنچا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے درمیان ایسے افراد کا ایک طبقہ پیدا ہو چکا ہے جس کا مقصد مذہب کی خدمت نہیں بلکہ مادی طور پر زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا ہے۔ یہ جنہیں لوگ مذہب کے محافظ سمجھتے ہیں اور ”بے چارے“ مولوی صاحب کہہ کر گزر جاتے ہیں ان کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ دنیاوی دولت حاصل کرنے کے لئے لوگوں کو سیڑھیاں بنا کر خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کررہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں کراچی کے جامعہ کے سربراہ کا انتقال ہوا ہے جس کے بعد ان کے ورثاءکے درمیان ان کی دولت کی تقسیم کا مسئلہ عدالت جا پہنچا وہاں جا کر پتہ چلا کہ یہ صاحب جنہیں پیغمبروں کے وارث اور جانشین کہا جاتا ہے کی نقد رقم ظاہر ہوئی تو لوگوں کی سٹی گم ہو گئی۔ خبر جوں کی توں حاضر ہے۔ اس میں کوئی تصرف نہیں کیا گیا ہے۔ عدالت میں پیش کی جانے والی دولت کی تفصیل یہ ہے۔
”ایک مولوی کی ملکیت کتنی ہو گی؟“
جامعہ بنوریہ ٹاﺅن کے مہتمم مرہوم مفتی نعیم کے فرزندان اپنے والد کی ”کمائی“ کے بٹوارے کے لئے کورٹ آگئے۔ ٹوٹل ”نقد“ رقم 5 ارب 34 کروڑ 27 لاکھ 147 روپیہ کورٹ کو بتائی گئی ہے۔ اب اندازہ لگائیے کہ جب نقدی اتنی ہے تو ان کی کروڑوں لگژری گاڑیوں، جائیدادوں اور دیگر اثاثے کس قدر ہوں گے؟ یہ تو دیگ کا ایک دانہ ہے جس کی پول اس کے بیٹوں نے کھول دی اب اس تناظر میں ان مفتیان دین، پیر عظام اور سیاست میں گلے گلے تک غرق مذہبی افراد پر نظر ڈالئیے جو سرکاری عہدوں پر براجمان رہے اور ہیں اور سرکاری املاک پر رہائش پذیر ہیں اور اپنے سرکاری دوروں کے مواقع پر کارمنصبی کے بجائے اپنے مدرسوں اور مساجد کے لئے ریال، ڈالر، تومان اور پونڈ میں ”چندے“ جمع کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں ایک صاحب کمال و جبروت جن کے بھائی ماشاءاللہ اسی طرح ریش دراز کے ساتھ وزیر سیاحت رہے ان کے ایک غیر ملک میں تفریحی ریزوٹ ہے جہاں دنیا کی ہر نعمت فراہم کی جاتی ہے مگر کسی نے اگر اس کی طرف اشارہ کر دیا تو اس کا دین خطرے میں پڑ جائے گا اور اسے سیاسی انتقام کہا جائے گا۔
ان کے لوگوں کے منہ سے کبھی عوام کو امانت، دیانت اور صداقت پر چلنے کی کوئی بات نہیں سنی، یہ عوام کو صرف اور صرف یہ ذہن نشین کراتے ہیں کہ اگر انہوں نے ان کی سوچ کے خلاف کوئی بات کی تو وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ کبھی اس بات کی تلقین نہیں کی کہ لوگو انسانیت سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہے اور اگر کوئی اچھا انسان نہیں ہے تو کبھی بھی اچھا مسلمان نہیں بن سکتا بلکہ ان کے ارشادات عالیہ یہ ہیں کہ تمہارے سوا سب کافر ہیں، سب واجب القتل ہیں اور یہ کہ اگر تم نے اپنے علاوہ کسی دوسرے فرقے کے مذہب کے افراد کی کسی اچھی بات کی تعریف بھی کی تو تم بھی ان کے ساتھ جہنم کا کندہ بنو گے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارے علاوہ ساری دنیا اپنے اصولوں، کردار اور گفتار کی بنیاد پر ترقی پذیر ہے اور ہم قصر مذلت میں گر چکے ہیں اب محض ماضی کے فسانے رہ گئے ہیں کہ بقول اقبال
تھے تو اباءوہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں