۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 156

مرغ باد نما

سعودی عرب کے حکمران جو خود کو خادمین حرم شریفین کہلاتے ہیں ان دنوں اسرائیل سے پینگیں بڑھا رہے ہیں اور کھل کر اپنے قدیمی یہودی بھائیوں سے تجارتی تیکنیکی اور اس سے بڑھ کر فوجی اتحاد کی باتیں نہ صرف کررہے ہیں بلکہ اقتصادی معاہدوں پر بھی دستخط کررہے ہیں۔ سعودیوں کی اس حرکت نے ہمارے پاکستانی مولویوں کو عجب کشمکش میں ڈال دیا ہے یہ بے چارے سعودی ٹکڑوں پر بل رہے ہیں۔ اب یہ ٹک ٹک دیدم پر دم نہ کشیدین کی صورت حال سے دوچار ہیں یہ جو رات دن عمران خان کو یہودی یہودی کہہ کہہ کر اپنے مقامی آقاﺅں کے دسترخوان پر حاضری دیتے رہتے ہیں اب تو ان کا ”قبلہ“ ہی رخ تبدیل کر چکا ہے۔ اب یہودی دوسرے ممالک ے پاسپورٹوں پر دھڑلے سے وزت ویزا پر سعودی عرب جا رہے ہیں اور سعودیوں سے اقتصادی معاہدے کررہے ہیں بلکہ ایک طویل عرصے تک اسرائیل کے وزیر اعظم رہنے والے سیاستدان نے ایک سعودی ٹیلی وژن کو تل ابیب میں انٹرویو دیتے ہوئے خود کو ”چیف مکی اوف سعودی عرب“ کے طور پر متعارف کرایا جب کہ ایک ممتاز سعودی خاندان نے دو اسرائیلی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے میں کسی تکلف کا نام نہیں لیا اور اس میں بھاری سرمایہ لگا دیا ہے۔
یہ حالات جو اب رونما ہو رہے ہیں کچھ دن قبل اس کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ سعودی۔ اسرائیل روابط میں دیگر عرب ممالک کے اسرائیل سے بڑھتے ہوئے تعلقات اور مالی فوائد کو دیکھ کر سعودی بھی اب اپنے نام نہاد اسرائیل مخالفت سے پیچھے ہٹ گیا ہے اورکھل کر سامنے آگیا ہے ورنہ اس سے قبل نیتن یاہو سابق اسرائیلی وزیر اعظم شہزادہ سلیمان کے ”پروگرام 2030“ کے شہر نوم کا دورہ کر چکا ہے اب سعودی عرب کا حقیقی حکمران شہزادہ سلمان اپنی اقتصادی پالیسی کو اورہال کررہا ہے اور اسے تیل کی بنیاد سے ہٹا کر اسے دوسرے شعبوں میں خصوصاً سیاحت پر منتقل کررہا ہے۔
ادھر اسرائیل اپنی 2020 کی پالیسی اور ”ابرہام معاہدے“ کے بعد اپنی ساری توجہ مشرق وسطیٰ کے ممالک پر مرکوز کئے ہوئے ہے اور ان کی تیل کی دولت کو اسرائیل کی اقتصادی بنیاد کا ایک حصہ بنانا چاہتا ہے اور اس میں اسے کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ یو اے ای نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اب تک ہزاروں اسرائیلیوں کو گولڈن ویزا دے کر اور انہیں جائیداد کی خریداری کی اجازت دے کر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرلی ہے تو سعودی عرب جس نے ابھی تک ظاہری طور پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے مگر اب ”صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں“ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے اب سعودی برملا کہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کو دشمن تصور نہیں کرتے بلکہ اب اسے اتحادی تسلیم کرتے ہیں یہ الفاظ شہزادہ سلامن کے ہیں اسرائیل جسے قائم کرانے میںبرطانیہ کے ساتھ ساتھ انہیں سعود کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا جس نے لارنس اوف عربیا کی سازش میں شریک ہو کر ترکی کی خلافت کو ختم کرکے شریف مکہ کے ساتھ مل کر سعودی ریاست قائم کی اور انگریزوں کی مدد سے عالم اسلام کی مرکزیت کو پارہ پارہ کردیا اسی سعودی خاندان نے عرب کے سینے پر اسرائیل کا خنجر گاڑھا تھا۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کو وطن چھوڑ کر دربدر ہونا پڑا اور وہ آج تک سعودیوں کی غداری کی سزا بھگت رہے ہیں اب اسی سعودی عرب نے صہیونیوں کی مملکت کو درپردہ تسلیم کرکے فسلطنیوں کی قسمت پر مہر لگا دی ہے اور وہ اب کبھی بھی اپنی سرزمین نہ صرف حاصل نہ کر سکیں گے بلکہ ان کی باقی ماندہ زمین بھی اسرائیل ہڑپ کر لے گا۔ اب بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالخلافہ کے طور پر بھی سارا مشرق وسطیٰ قبول کرلے گا۔ سو اب مسلمانوں کا قبلہ اول پر حق باقی نہیں رہے گا۔ ایک سعودی تھنک ٹینک کے مطابق اب سعودی پالیسی مکمل تبدیل ہو چکی ہے اور اسرائیلی اب سعودی عرب میں بلا روک ٹوک آرہے ہیں وہ تیسرے ملک کا پاسپورٹ استعمال کرتے ہیں اور ہر سعودی کو علم ہے کہ یہ اسرائیلی ہے نہ صرف یہ کہ اب وہ اب تجارتی روابط قائم کررہے ہیں اور سعودیوں کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری بھی قائم کررہے ہیں۔
ایک ذرائع کے مطابق 2019ءسے اسرائیل کی اعلیٰ انجینئرنگ صلاحیت اور سوفٹ ویئر ٹیسٹنگ کمپنیاں سعودی عرب میں فنی معاونت کررہی ہیں اور سعودی عرب کی تیل کی صنعت میں اہم کردار ادا کررہی ہیں، جب کہ اسرائیل کی مصنوعات تیسری کمپنیوں کے ذریعہ سعودی عرب میں دستیاب ہیں اور ہر شخص اس سے واقف ہے جب کہ سعودی عرب کی متعدد فیملیز اسرائیلی کمپنیوں اور بینکوں میں بڑے شیئر ہولڈرز ہیں جب کہ اسرائیل اور مشرقی وسطیٰ کے متعدد ممالک فوجی معاہدوں میں شامل ہیں۔
اسرائیل ایران کا ہوا دکھا کر اب فوجی سازوسامان بھی فروخت کررہا ہے۔ سو اب بلین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ پاکستان کیا کرے گا کیونکہ اس کے آقائے ولی نعمت سعودی عرب نے تو اپنا قبلہ تبدیل کر لی اہے جن سے وہ ہمیشہ بھیک مانگتا رہتا ہے سو کیا وہ بھی اب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گا؟ اور رہ گئے ہمارے مولوی سو وہ تو اسی کی گائیں گے جہاں سے انہیں حلوہ مانڈہ ملے گا۔ ہم جو کہ ”مرغ باد نما“ ہیں نہ ہمارا کوئی موقف ہے نہ کوئی اصول ہم تو اپنے آقاﺅں کی ہوا کا رخ دیکھ کر ادھر ہی مڑ جاتے ہیں تو کوئی وقت جاتا ہے کہ ہمارے مولوی بنی اسرائیل سے رشتہ جوڑ کر خودساتخہ تاریخی حوالوں سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرعی وجوہات بیان فرمانا شروع کردیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں