امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 518

منصف، منصِف، قوم پکارے۔ منصِف کہاں سے آئے؟

پاکستان کے منصف اور نظامِ انصاف ایک بار پھر شہہ سرخیوں میں ہیں۔ مسئلہ وہی ہے جو پاکستان کے سابق جسٹس منیر کے دور بلکہ اس سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اور وہ یہ کہ کیا پاکستان کے منصف واقعی دیانت دار ہیں اور انصاف کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ یا ذاتی، سیاسی، اور مذہبی تعصبات کے نتیجہ میں ایسے فیصلے کرتے ہیں جن میں انصاف کا بول بالا ہونے کے بجائے انصاف کا پلڑہ تہہ و بالا ہو جاتا ہے۔ بارہا یہ لگتا ہے کہ ہمارا نظامِ انصاف منصفی کے اصولوں پر نہیں بلکہ مصلحتوں پر مبنی ہے ، یا اس کے منصف مختلف قسم کے رکیک دباﺅ کے تحت ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کے منفی اثر نا قابلِ تلافی ہوتے ہیں۔ ہم فیض کا ایک مصرعہ سنا سنا کر تھک گئے ہیں، اور آپ کے کان بھی پک گئے ہوں گے، پھر بھی مکرر پیش ہے، ”بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی۔۔۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ “
انصاف کا تقاضا ہمیں یہ اقرار کرنے کو بھی کہتا ہے کہ یہ ناقص نظامِ انصاف صرف ہمارا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ پسماندہ اور تیسری دنیا کے اکثر ممالک کا بھی یہی حال ہے ، جن میں ہمار ا پڑوسی بھارت بھی شامل ہے۔ لیکن بھارت کی مثال دے کر ہم اپنی ذمہ داری ترک نہیں کر سکتے۔ ہاں نصابی طور پر یہ ذکر بھی ضروری ہے۔
انصاف پر سیاست یا طاقت وروں کے بوجھ کا مسئلہ صرف تیسری دنیا کا بھی نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال دنیا کی ایک بڑی اور بہتوں کے لیئے ایک مثالی جمہوریت امریکہ کی ہے۔ وہاں کی اعلیٰ ترین عدالت میں نو منصف ہوتے ہیں۔ ان کی نامزدگی امریکہ کا صدر کرتا ہے۔ جسکی توثیق وہاں کی سینیٹ کرتی ہے۔ ہر امیدوار قابل ترین امیداروں میں سے چنا جاتا ہے۔ لیکن اس پر صدر کی جماعت کی سیاست کا بڑا اثر ہوتا ہے۔
امریکہ میں دو بڑی جماعتیں، کنزرویٹ و Conservartive اور ڈیموکریٹک Democrartic جماعتیں ہیں۔ کنرویٹو، قدامت پرست ہیں جن پر مذہب کا بھی اثر ہے۔ ڈیمو کریٹک، نسبتاً معتدل مزاج سمجھی جاتی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے نظریات میں وہاں کی آبادی کی ذہنیت کا بھی عکس ہوتا ہے۔ ان کے صدور کے منتخب کردہ منصف بھی اس ہی ذہنیت کی عموماً عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن حتیٰ الامکان انصاف کے بنیادی اصولوں کو بکھرنے نہیں دیتے۔ ان کے فیصلے مدلل دلائل اور تاویلوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہاں سے یہ خبر نہیں آتی کہ کسی منصف نے چاہے وہ اعلیٰ ہو یا ذیلی ، کسی بلیک میل یا مالی یا دیگر دباﺅ کے تحت فیصلہ دیا ہو۔
اس کے برخلاف پاکستان سے یہ خبر مکرر اور مسلسل آتی ہے۔ ابھی حال ہی میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف ایک متنازعہ فیصلہ دینے والے منصف نے ایک ویڈیو پر اقرار کیا کہ ان پر سخت دباﺅ تھا۔ جس کے نتیجہ میں نواز شریف کو مقید کیا گیا۔ گو ان کے خلاف کرپشن کی گواہی نہیں ملی۔ ہمیں یہاں نواز شریف کی حمایت مقصود نہیں ہے۔ ان کے اس ویڈیو کو مریم نواز شریف نے برملا نشر کر دیا۔
پھر وہی ہاہا کار مچی جو ہماارا مقدر ہے۔ ہمارے ایک دوست نے اس خبر کو ایک انقلابی خبر سمجھ کر ہماری رائے مانگی۔ ہم نے انکسار سے عرض کیا کہ، بھائی سب مایا ہے۔ یعنی کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ وہ قدرے ناراض ہو گئے۔ لیکن ہماری نظر میں ایک مسلسل تاریخ ہے۔جو جسٹس منیر سے بھی پہلے کم ازکم ستر سال پر محیط ہے۔ تازہ ترین ویڈیو کو بھی جھٹلادیا گیا۔ موجود حکومت اس معاملے سے الگ ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ کیونکہ دباﺅ ڈالنے والے تو کوئی اور ہی ہوتے ہیں۔ یہ پتہ چل جائے تو بات ہی کیا۔
ججوں پر دباﺅ یا ان کے فیصلوں کی قریبی تاریخ میں جسٹس جاوید اقبال کا اسکینڈل، جسٹس قیوم کی ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کا انکشاف، بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر دباﺅ کا اعتراف، جسٹس شوکت عزیز کو عہدے سے ہٹایا جانا۔ جسٹس صدیقی نے دعویٰ کیا تھا کہ منصفو ں پر پاکستان کے سیکوریٹی ادار ے دباﺅ ڈالتے ہیں۔ اصغر خان کے فوجیوں کی طرف سے سیاست دانوں کو رقوم کی فراہمی کا معاملہ۔ کسی کا بھی کوئی نتیجہ نہیں ہے۔ حال ہی میں خود سپریم کورٹ کے اہم منصف، جسٹس قاضی عیسیٰ کے خلاف ریفرنس۔ یہ ریفرنس مبینہ طور پر ان کے اس فیصلہ کی سزا میں گھڑا گیا جس میں انہوں نے سیاست پر سیکوریٹی اداروں کے عمل دخل کو ٹوکا تھا۔
بارہا ان مثالوں کو بار بار دہرانے والا خود مایوس اور غمزدہ ہوتا ہے، اور سننے پڑھنے والوں کا بھی دل برا ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسے سارے مسائل کا کوئی حل نکالنے نہیں دیا جاتا۔ بلکہ ایسی خبروں کے بعد اخباروں پر، میڈیا ، پر اور رائے نگاروں پر دباﺅ اور بھی سخت ہوجاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پاکستان میں مریم نواز کی ویڈیو نشر کرنے والے اداروں بلاخصوص ان کے ٹیلی ویژن چینلوں کئی گھنٹے گھنٹے روکا گیا۔ کسی بھی قانونی کاروائی کے بغیر۔جس ملک کا نظامِ انصاف ہی ناکارہ ہو ، جہاں متوازی عدالتوں میں موت کی سزایئں ٹکے ٹکے میں بانٹی جایئں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا کبھی کوئی تبدیلی آئے گی، سو ایسے میں ہم جو احمقوں کی جنت کے باشندے اور ومانوی ذہنیت کے مارے بس یہی امید رکھتے ہیں کہ ’وہ صبح کبھی تو آئے گی‘، اور شاعر کہتا رہتا ہے کہ سفر تو طویل بھی ہے،اور دشوار گزار بھی۔ پھر بھی ، ’چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں