تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 435

مولانا ابوالکلام آزاد کا انتباہ اور حسین حقانی

پاکستان آج تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ ساتھ ساتھ برصغیر کے عوام بالخصوص ہندوستان کے مسلمان جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس کے بارے میں ہمارے قائدین جو قیام پاکستان سے پہلے اپنی اپنی پیشن گوئی کرتے رہے اور مسلمانوں کو تقریباً اب سے 77 سال پہلے آگاہ کرتے رہے ان رہنماﺅں کو ہم مسلمانوں کا خیر خواہ سمجھنے کے بجائے ان کو مختلف مسلمان دشمن القابات سے نواتے رہے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام سرفہرست ہے۔ اس ہی طرح موجودہ حالات کے بارے میں قیام پاکستان کے بعد کے پیدا شدہ حالات کے بارے میں بے لاگ تجزیہ کرنے والوں کو بھی پاکستان کا دشمن قرار دے کر ان کی حقیقی ملک کی صورت حال کے بارے میں آگاہی کی بناءپر پاکستان کا غدار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ ان میں حسین حقانی کا نام بھی سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔ آغا سورش کاشمیری تحریک پاکستان کے وہ مجاہد رہے جنہوں نے اپنے قلم کو پاکستان کے لئے وقف کردیا، وہ صحافت کے بڑے مدبر رہے اسی طرح وہ پاکستان کی تحریک میں صف اوّل میں بھی شامل رہے۔ انہوں نے قیام پاکستان سے بہت پہلے تقریباً دو ہفتے مولانا ابوالکلام کے ساتھ مسلسل اپنی گفتگو کو جو کہ ایک طویل انٹرویو پر مبنی تھا اپنی کتاب جو کہ 1996ءمیں شائع ہوئی جس کا نام ابوالکلام آزاد تھا اس میں شائع کیا۔ مولانا ابوالکلام تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما تھے۔ بلکہ وہ اسلام کے بہت بڑے عالم بھی تھے جنہوں نے قرآن پاک کی تفسیر بڑے عالمانہ انداز میں تحریر کی۔ اس تفسیر کو عالم اسلام میں بہت قدر و منزلت حاصل رہی جس طرح مولانا ابواعلیٰ مودودیؒ کی تفسیر تفہیم قرآن کو بھی عالم اسلام میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ مولانا ابوالکلام ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں بہت درد رکھتے تھے۔ وہ بحیثیت مجموعی برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں بہت واضح نظریات رکھتے تھے ان کی سوچ اور فکر علاقائی نہیں بلکہ بین الاقوامی طرز پر تھی یہ ہی وجہ رہی کہ وہ برصغیر کے ہر خطے کے مسلمانوں کے بارے میں یکساں فکر مند رہے، ساتھ ساتھ وہ ہندوستان بھر کے عوام کی خوشحالی کے منی رہتے تھے۔ جب مسلم لیگ نے 1940ءمارچ کو قرارداد پاکستان منظور کی تو انہوں نے اس کی بہت مخالفت کی ان کے پاس اپنی دور رس نگاہ کی وجہ سے ایک خاص بصیرت تھی۔ لیکن ان کی مخالفت برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں نے بہت زیادہ کی اور ایک موقع پر ان تمام پیشن گوئیوں کو مسترد کرکے ان کو کانگریس کے شوبائے کا خطاب دیا گیا۔ اس ہی طرح موجودہ دور میں قیام پاکستان کے تقریباً 77 سال کے بعد ہونے والی تبدیلیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے والوں کو بھی عوام کی اکثریت پاکستان کا مخالف سمجھتی ہے جس میں حسین حقانی کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ حسین حقانی نے قیام پاکستان کے بعد کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جن کی وجہ سے پاکستان اس وقت اس خلفشار کا شکار نظر آتا ہے جس کی پیشن گوئی مولانا ابوالکلام آزاد نے قیام پاکستان سے بہت پہلے کردی تھی۔ حسین حقانی یا ان جیسے صاحب فکر افراد پاکستان سے باہر رہ کر دنیا بھر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے بارے میں تجزیہ اپنی کتابوں میں اور مضامین میں گزشتہ 20 سال سے کررہے ہیں کہ وہ کیا غلط فیصلے تھے جن کی وجہ سے پاکستان زبوں حالی کا شکار ملک ہونے کے باوجود دنیا بھر میں دہشت گرد ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے حالانکہ پاکستان کے تقریباً ایک لاکھ افراد جس میں پندرہ ہزار سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے وہ لقمہ اجل ہوئے تقریباً دو سو ارب ڈالر کے نقصان اٹھانے کے باوجود دنیا بھر کا محسن بننے کے بجائے غربت و افلاس کا شکار ہو کر ملک بحران در بحران کا شکار ہوتا جارہا ہے اور جب حسین حقانی ان عوامل کی نشاندہی کرنے اور اپنے تجزیوں کو پاکستان کے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے تو اس پر بھی اس ہی طرح الزامات لگا کر ملک سے بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جس طرح مسلمانوں کی کمزوریاں اور غلط فیصلوں پر اعتراض کرنے پر مولانا ابوالکلام کو مسلمانوں کا اور بالخصوص پاکستان کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی تحریک کے دوران مسلمانوں نے جس طرح جذباتی فیصلے کئے ان کے اثرات برصغیر کے تمام مسلمانوں پر اب تک پڑ رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور مسلمان ان کے مہلک اثرات کے باعث افلاس و پسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ نریندر مودی نے مسلمانوں کا جو حشر کیا ہے وہ ہی پاکستان میں ضیاءالحق اور اس جیسے طرز فکر رکھنے والے فوجی افراد اور اداروں نے پاکستان کو لہو لہو کرکے معاشی طور پر اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی کے حالات مولانا ابوالکلام آزاد کی پیش گوئی میں پہلے ہی بیان کئے جا چکے ہیں۔ اس ہی طرح حسین حقانی نے اپنے خیالات اور نظریات سے ملک سے باہر بیٹھ کر اپنے عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر ان کو پاکستان کے عوام نے اس ہی طرح قابل غور نہ سمجھا جس طرح برصغیر کے چید عالم اور رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کی ان پیش گوئیوں کو اہمیت نہ دی جو کہ اب حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہیں اور جس کے مہلک اثرات سے پاکستان اور برصغیر کے مسلمان اب گزر رہے ہیں۔ یعنی جو مقدمہ پاکستان کا حسین حقانی دنیا کے سامنے لڑ رہے ہیں اور ان پر پاکستانیوں نے پابندی لگا رکھی ہے اس ہی طرح ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کی وکالت انگریزوں کے سامنے کی لیکن ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے ان کو غیر محب وطن سمجھ کر نظر انداز کیا۔ آج ان کی مسلمانوں کے لئے وکالت وقت کے سامنے حق و صداقت بن کر ہمارے سامنے آرہی اور ان کے اثرات واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں ان کا سب سے پہلے استدلال یہ تھا کہ ہندوستان کی تقسیم برصغیر کے مسلمانوں کی تقسیم تباہی کا باعث ہو گی ان کا ویژن یہ تھا کہ پاکستان کا قیام جس انداز میں بنایا جارہا ہے اس سے خطے میں بے شمار پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور اس کا نقصان بالعموم وہاں کے تمام عوام کو ہو گا اور بالخصوص مسلمانوں کو اس کے مہلک اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ پاکستان بن جانے کے بعد نا اہل قیادت کی بدولت مشرقی پاکستان کے عوام علیحدگی کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ دنیا میں کہیں بھی اسلامی ملت کا تصور قائم نہیں ہو سکے گا اور مسلم ممالک بھی پاکستان سے کسی قسم کا تعاون کرنے کے روادار نہیں ہوں گے۔ جاگیردار اور دولت مند دو قومی نظریہ کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ کرکے قومی دولت عام لوگوں تک پہنچنے نہیں دیں گے۔ فوج آمروں اور وڈیروں، جاگیرداروں کی وجہ سے داخلی سورش بپا ہو گی اور طبقاتی جنگ کا ملک کو سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ مذہب معاشی ترقی کی جگہ نہیں لے پائے گا اور عوام آپس میں مذہب سے بیگانہ ہو کر معاشی اور مادی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے۔ یوں پاکستان میں انتشار بڑھتا چلا جائے گا۔ شرائط کے بغیر عالمی ادارے بھی پاکستان کی مدد سے انکار کر دیں گے۔ پاکستان میں اختلاف عروج پر پہنچ جائیں گے۔ ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمان ایک بن بلائے مہمان سمجھے جائیں گے، ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگے گا۔ برصغیر کے مسلمانوں کا حشر بھی خلافت عثمانیہ جیسا جہاں ہر علاقے اپنے لئے خودمختاری کا مطالبہ کرے گا ان پر زور زبردستی کرکے ایک ملت بنانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ہی حال ہندوستان کے مسلمانوں کا ہو گا، ہندوستان میں جب انتہا پسند ہندوﺅں کے رحم و کرم پر ہوں گے تو پاکستان کے مسلمان ان کی مدد کرنے سے قاصر ہوں گے اس ہی طرح پاکستان کے عوام مختلف گروہ بندیوں میں بٹ چکے ہوں گے اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے تو پاکستان خود دنیا بھر میں اپنی بقاءکی جنگ کے لئے بھیک مانگتا پھر رہا ہو گا۔ اس طرح ہندوستان کے مسلمان بھی ان کی مدد کرنے پر بے یارومددگار ہوں گے۔ پاکستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے عالمی سازشوں کا شکار ہو جائے گا پاکستان فوجی آمروں کی شکارگاہ بن جائے گا جس کی وجہ سے پڑوسی ممالک بھی اس کے مخالفین کے ساتھ شامل ہو کر پاکستان کی تقسیم کی سازشوں میں شریک ہو کر اس کے حصے بخرے کرنے کے درپے ہو جائیں گے اور پاکستان انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے آغا سورش کاشمیری کو اپنے دو ہفتہ طویل انٹرویو میں پاکستان کے بارے میں اب سے 77 سال پہلے پیش گوئی کی تھی وہ اب وقت کے ساتھ ساتھ حقیقیت کا روپ دھارتی چلی گئی ہے آج پاکستان کا وہ ہی حال ہے جو سب کے سامنے زندہ حقیقت بن چکا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ہماری پچھلی تیسری نسل کے سامنے جو نقشہ کھینچا تھا اس وقت سب نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھی اس کا خمیازہ اب تک بھگتنا پڑ رہا ہے اس ہی طرح ہماری نسل کے سامنے حسین حقانی، عائشہ بلال یا شجاع نواز ان عوامل کی نشاندہی کررہے ہیں اور ان پر ہم نے پابندیوں کا غلاف ڈال کر شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرلی ہیں اس کا خمیازہ بھی ہماری آنے والی نسلوں کو بگھتنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ پھر نام بھی نہ ہو گا داستانوں میں۔ خدانخواستہ ہمارا حشر بھی اسپین کے مسلمانوں جیسا نہ ہو اور ہم ابوالکلام آزاد کی طرح حسین حقانی کی تحریریں پڑھ کر خون کے آنسو بہا رہے ہوں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں