Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 470

نظام کی تبدیلی کیسے ہو؟

تعلیم ان لوگوں کے لئے کامیابی کے دروازے کھول دیتی ہے جو ان راہوں کے متلاشی ہوں اور وہ حاصل شدہ تعلیم کو مثبت طریقے سے استعمال کرنے کے لئے جدو جہد کریں۔امریکہ کی سر زمین پر ابتدائی دور میں یوروپ سے آنے والے زیادہ تر لوگ جاہل ،اجڈ ،اور گنوار ٹا ئپ کے تھے اور یا پھر جرائم پیشہ لوگ تھے۔وہ افراد جو ان لوگوں کے درمیان تھوڑی بہت بھی تعلیم رکھتے تھے انہوں نے بڑی ہوشیاری اور ذ ہانت سے پورا کنٹرول سنبھال لیا۔ابراہام لنکن اگرچہ موچی کا بیٹا تھا لیکن علم حاصل کرنے کے شوق اور قدرتی ذہانت نے اسے دوسرے لوگوں سے برتر ثابت کردیا اور ایک دن وہ امریکہ کے صدر کے لئے چنا گیا۔اور اس کے بعد کے آنے والے صدر بھی اندھوں میں کانے راجہ کی طرح ہی تھے۔لہذا تعلیم کبھی رائیگاں نہیں جاتی اسے استعمال کرنے کا فن آنا چاہئے۔لیکن ان معمولی تعلیم یافتہ افراد نے امریکہ کو اپنی جاگیر نہیں بنایا بلکہ وسائل کی تقسیم برابری کی بنا د پر ہوئی۔دولت کمانے ملک کو ترقّی دینے اور دولت کی منصفانہ تقسیم میں سب نے حصّہ لیا یہی وجہ ہے کہ امریکہ ترقّی کے منازل طے کرتا ہوا آج سپر پاور بنا ہوا ہے۔صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ دنام کے کئی ممالک انہی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ترقّی میں ہم سے کافی آگے نکل چکے ہیں۔اور ہم اس لئے پیچھے رہ گئے کہ غریب عوام کے ساتھ نا انصافی ہوئی۔پاکستان بننے سے پہلے ہی ان تمام علاقوں میں جو بعد میں پاکستان کا حصّہ بنے انگریزوں کے وفادار زمیندار ،جاگیر دار ،وڈیرے ،سردار اور خان کا قبضہ تھا۔ سب نے اپنے اپنے علاقوں کو سنبھالا ہوا تھا اور وہاں کے غریب لوگوں کو غلام بنا کر رکھّا ہوا تھا۔ اور یہ قبضہ گروپ نہیں چاہتا تھا کہ ان غریب لوگوں کو تعلیم سے روشناس کرایا جائے۔ لہذا ان علاقوں کے رہنے والے تعلیم سے نابلد تھے اور نہ ہی وہاں اسکولوں کا کوئی تصوّر تھا۔انگریز گو کہ حکومت میں تھا لیکن اسے ان کے اندرونی معاملات سے کوئی سروکار نہیں تھا اسے تو بس لگان اور خراج سے مطلب تھا۔اور ان کے یہ وفادار اپنے ہی علاقوں کے غریبوں پر ظلم و ستم ڈھاتے اور ان سے گدھے کی طرح کام کرواکر انگریزوں کو بھی مال پہونچاتے اور اپنی جیبیں بھی بھرتے تھے۔پاکستان بننے کے بعد بھی یہی صورت حال رہی۔ان پر حکومت کرنے والوں نے ان کے ذہنوں میں یہ بٹھایا ہوا تھا کہ یہ جگیر دار وڈیرے ،سردار اور خان ہی تمھارے خدا ہیں لہذا وہ ساری زندگی ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہے۔کیونکہ انگریزوں نے ان زمین داروں ،جاگیر داروں ، سرداروں،وڈیروں ،اور خانوں کو ان کی وفاداریوں کے انعام میں دل کھول کر وہ زمینیں عطا کیں جو ان کے باپ کی نہیں تھیں۔ان غریبوں پر ہمیشہ تعلیم کے دروازے بند رہے لہذا انہیں کبھی نہیں معلوم ہوسکا کہ پاکستان کن حالات میں بنا۔کن علاقوں سے کیا معاہدے ہوئے۔انہیں کسی بات کا علم نہ ہوسکا وہ صرف اپنے علاقے کے بادشاہ کو جانتے تھے اور اس پر ہی یقین رکھتے تھے ،اور ان پر حکومت کرنے والوں نے انہیں لاعلمی میں ہی رکھّا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتے رہے۔ایک بڑے علاقے کے تمام وسائل سے وہ اور ان کے خاندان والے فائدہ اٹھاتے رہے یعنی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے اور غریب غریب ہی رہا۔لیکن اب صورت حال تبدیل ہورہی ہے۔ان چھوٹے علاقوں کے لوگوں کا بھی شعور بیدار ہونا شروع ہوگیا ہے دنیا بہت چھوٹی ہوگئی ہے۔انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا نے لوگوں کے شعور کو بیدار کرنا شروع کردیا ہے لیکن ایسے تعلیم یافتہ اور با شعور لوگوں کی تعداد فی الحال کم ہے۔اس کے باوجود غدّار وطن اور انگریزوں کے غلاموں کی نسل کے کچھ لوگ ابھی باقی ہیں جو پرانے طریقے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور کچھ لوگ محمود اچکز ئی جیسے لوگوں کی باتوں پر بھی ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔
محمود اچکزئی پاکستان بننے کے ایک سال بعد یعنی 1948ءمیں بلوچستان کے علاقے میں پیدا ہوا اس لحاظ سے پیدائشی پاکستانی ہے۔ ان کے والد عبدالصمد خان اچکزئی پختون ملّی عوامی پارٹی کے چئیرمین تھے۔ عبدالصمد خان کے انتقال کے بعد محمود اچکزئی پارٹی کے سربراہ مقرّر ہوئے۔ پشتون، سندھی، بلوچی قوم پرستوں کے اتّحاد پونم کے چئیرمین رہے۔ان کو پاکستان توڑنے والے تمام لوگوں سے محبّت رہی ہے۔ تین مرتبہ ایم۔این،اے تو بن گئے لیکن سیاست میں ان کی پارٹی کوئی ایسا مقام حاصل نہ کرسکی کے برسر اقتدار آجاتی ،اور عمران خان کے آجانے کے بعد تو رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ان کے دو مقاصد تھے یا تو برسر اقتدار آجائیں یا پھر پاکستان کے ٹکڑے کردیں پہلے مقصد میں تو ناکام ہوگئے لیکن دوسرا مقصد جس پر اندر ہی اندر کام ہورہا تھا کھل کر سامنے آگیا حالانکہ ان کی قوم پرست پارٹیوں میں دلچسپی اس بات کی طرف واضع اشارہ تھا کہ یہ پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔مگر اس قوم کا کیا جائے جو مجیب الرحمن کے حق اقتدار کو بھٹّو کے کہنے پر تسلیم نہیں کرتی۔جس نے بھٹّو کو کبھی کاندھوں پر اٹھایا تو کبھی اس پر جوتوں کی بارش کی۔جام صادق کے تمام گھناو¿نے کرتوت سامنے آنے کے بعد بھی اس قوم نے اس کو کاندھوں پر اٹھایا گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور اسے وزیر اعلی’ بنادیا۔یہی قوم زرداری کی واہ واہ بھی کرتی ہے اور گالیاں بھی دیتی ہے ،پچھلی حکومتوں سے بیزار ہونے کے باوجود خاموش بیٹھی رہی۔یہ قوم ایسے ہی لوگوں کے قابل ہے جو ان کو اّلو بناکر اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔عامر لیاقت جیسے جوکر پیسہ کمانے کے لئے کسی کے اشارے پر دین میں رخنہ ڈالنے اور الٹے سیدھے فتوے ٹھوکنے کا کام کرتے ہیں اور یہ قوم ان کو اسلامی اسکالر کا نام دیتی ہے زرداری اور ان جیسے دوسرے سیاسی رہنما جن کا اس ملک کی بربادی اور جڑیں کھودنے میں کّھلم کھّلا ہاتھ ہے۔ان کو ایک بہترین سیاسی شخصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ان کے بیانوں سے قوم ناراض بھی ہوتی ہے تو ان کو معلوم ہے کہ یہ جب چاہیں گے مگر مچھ کے آنسو بہاکر پھر قوم کے کندھوں پر سوار ہوجائیں گے ۔بعض جعلی لیڈروں جو کام کے نا کاج کے دشمن اناج کے الٹا سیدھا جو منہ میں آیا وہ بک دیا اور پیسہ منگوالیا ایک بڑی نوجوان نسل کو تباہ کردیا اور شہر کو برباد کردیا اور اس قوم کی یاد داشت اتنی کمزور ہے کہ اسے صرف آج کی بات یاد رہتی ہے۔ملک کے دو ٹکڑے ہوئے ملک معاشی طور پر بربادی کی طرف رواں دواں ہے تعلیم کا فقدان ہے ،عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔بھٹّو نے کہا تھا قوم گھاس کھاکر ایٹم بم بنائے گی۔ایٹم بم بنے زمانہ گزر گیا قوم ابھی تک گھاس کھارہی ہے اسے بھی معلوم تھا اب یہ قوم ساری زندگی گھاس کھائے گی اور اپنے اپنے سیاسی رہنماو¿ں کے گن گائے گی۔سیاسی رہنماو¿ں کی بد کاریاں ، بد عنوانیاں،جھوٹ ،فریب جانتے ہوئے بھی یہ قوم ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہے تو کیا یہ قوم اس قابل نہیں ہے کہ اس سے اسی طرح کا سلوک کیا جائے۔ایک عمران خان سے بہت سی امیدیں تھیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ وہ پورے خلوص سے ملک کے ساتھ اور قوم کے ساتھ ہمدرد ہے۔وہ حقیقت میں ملک کو تبدیل کرنا چاہتا ہے ملک کو ترقّی یافتہ قوموں کے برابر لانا چاہتا ہے لیکن کیا کیا جائے 73 سالہ گلا سڑا نظام اور بد عنوانیوں کی کیچڑ سے لتھڑے ہوئے وہ لوگ جن کو یہ قوم اپنا ان داتا مانتی ہے وہی راہ کی رکاوٹ ہیں اور وہی ہمارے لیڈر کہلاتے ہیں کیوں کہ ایک بڑی تعداد ان کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑی رہتی ہے ظاہر ہے یہ جس پارٹی میں ہوں گے اسی کی جیت یقینی ہوجاتی ہے اور یہ اپنے مفاد کے لئے پارٹیاں بھی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان کی مجبوری تھی کہ وہ حکومت میں آئے بغیر اپنے حبّ الوطنی کے خواب کو عملی جامہ نہیں پہناسکتا تھا لہذ ا اسے ایسے لوگوں کو اپنی پارٹی میں لینا پڑا جو اعتماد کے قابل تو نہیں تھے لیکن جن کی مدد سے حکومت بنائی جاسکتی تھی۔وہ بیک وقت کئی محاذ پر لڑ رہا ہے میرا خیال ہے تاریخ میں کبھی کسی پاکستانی سربراہ کو اتنی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔وہ کرنا اچھا چاہتا ہے لیکن بے شمار رکاوٹیں راستے میں کھڑی ہوجاتی ہیں کسی بھی منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی رکاوٹ کی کوشش شروع ہوجاتی ہے اور ہنگامہ کرکے اس منصوبے پر سوچ و بچار کرنے سے پہلے ہی اسے ناکام قرار د دیا جاتا ہے جو تعاون چاہئے وہ نہیں ملتا اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپشن کا خون صرف سیاست دانوں کے منہ کو نہیں لگا ہے بلکہ قوم کی ایک بڑی تعدادنے اس کرپشن میں برابر کا حصّہ لیا ہے۔ اب وہ ناجائز کمائی کو واپس جاتے دیکھ نہیں سکتے وہ چاہتے ہیں وہی پرانا نظام آجائے اور اس میں سیاست دان، سرمایہ دار، جاگیردار حکومت میں شامل کئی وزراہ سب شریک ہیں جو لوگ بھی آج بات بات پر شور مچاتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں جان لیجئیے کہ وہ کرپٹ ہیں اور عمران خان کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اللہ عمران خان کا حامی و ناصر ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں