نقاب
حال سے ہو گئی ہے جو بے حال لمحہ فکر ہے مرے یارو
بے نوائی کے ایسے عالم میں ہو کے خانہ خراب پھرتی ہے
اپنے کرتوت پر کبھی دُنیا شرمساری سے منہ چھپاتی نہیں
موت کا خوف جب سے لاحق ہے تب پہن کر نقاب پھرتی ہے
323
نقاب
حال سے ہو گئی ہے جو بے حال لمحہ فکر ہے مرے یارو
بے نوائی کے ایسے عالم میں ہو کے خانہ خراب پھرتی ہے
اپنے کرتوت پر کبھی دُنیا شرمساری سے منہ چھپاتی نہیں
موت کا خوف جب سے لاحق ہے تب پہن کر نقاب پھرتی ہے