تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 544

ووٹ کو عزت دو، فوج کو عزت دو

بادشاہ نے ایک بہت بڑے فاضل استاد کو اپنے شہزادوں کی تعلیم و تربیت کے لئے معمور کیا۔ ان استاد کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ شہزادوں کی معمولی غلطیوں کو بھی نظر انداز نہ کرتا تھا۔ ادھر ان سے کوئی غلطی ہوئی ادھر ان کو سخت سزا دی۔
شہزادے یہ تشدد کافی عرصہ برداشت کرتے رہے پھر ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور مناسب موقع دیکھ کر انہوں نے بادشاہ کو اس مصیبت سے آگاہ کیا، شہزادوں کی زبانی استاد کی شکایت سن کر بادشاہ کو بہت ملال ہوا اس نے اس ہی وقت استاد کو بلا کر اس سے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ تم دوسرے شاگردوں کے مقابلے میں ایسی شختی میرے شہزادوں کے ساتھ روا رکھتے ہو۔ ان فاضل استاد نے جواب دیا حضور والا! یوں تو علم ادب سیکھنا اور سکھانا سبھی کے لئے بہت اہم ہے لیکن شہزادوں کے لئے حد درجہ ضروری ہے کیونکہ آگے چل کر ملک کا انتظام یہ سنبھالیں گے۔ عام طالب علموں کی بات اور ہے ان کی خامیوں کے اثرات ان کی ذات تک محدود رہتے ہیں لیکن حکمرانوں کی غلطیوں کی سزا پورے ملک اور معاشرے کو بھگتنی ہوتی ہے۔ اس لئے کم عمر طالب علموں کو جتنی اہم ذمہ داری سنبھالنے کے لئے تیار کرنا ہو ان کی تعلیم و تربیت بھی اس کے مطابق ہی ہونی چاہئے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں نئی نسل کے سامنے تین بڑے نقطہ نظر سامنے لائے جارہے ہیں جو نقطہ آج کل سب سے زیادہ سامنے آرہا ہے جس کا نعرہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بھی لگا رہا ہے وہ ہے ”ووٹ کو عزت دو“ یہ نعرہ اور مقصد بہت وزنی ہے یہ ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں قابل قبول ہونا چاہئے۔ ووٹ کو عزت نچلی سطح سے ملنی شروع ہوئی، چاہے اس کے لئے ووٹر کو بھی عزت اور احترام ملنا چاہئے کیونکہ جس کے پاس ووٹ کی طاقت ہے ووٹر کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ کتنی بڑی طاقت اپنے پاس رکھتا ہے اس طاقت کو وزن اگلے درجے تک محسوس کرنا چاہئے، ووٹ کو عزت دینے کے بیانیہ کو بھی عزت ملی چاہئے اور ووٹر کو بھی عزت اور احترام حاصل ہونا چاہئے یہ ووٹر اپنے حکمراں سے یہ سوال کرنے کا بھی اہل ہونا چاہئے کہ اس جسم سے بڑی چادر کہاں سے آئی جب ووٹر نواز شریف قمر جاوید باجوہ اور زرداری عمران خان سے یہ سوال کرنے کے لائق ہو جاتے تو ووٹر کو بھی عزت حاصل ہو جائے گی اور ووٹ کو بھی عزت مل جائے گی۔ اگر ووٹر کو حاصل مفلس ہاری کی طرح رکھا جائے گا اور اس کو اپنی نجی جیلوں میں اس کے خاندان کے ساتھ قید کرکے جبری مشقت کرنے پر مجبور کیا جائے گا تو نہ ووٹر کو عزت ملے گی نہ ہی ووٹ کو اور اس ہی طرح جب ووٹر کو دھونس دھمکی اور دھاندلی سے انتخابات میں طاقت کے ذریعہ اپنے حق میں مجبور کیا جائے گا تو ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ تسلیم کون کرے گا۔ اس لئے ووٹ کو عزت دینے کے لئے ووٹر کو طاقت دو بنائیں جیسا کہ دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں ووٹر کے آگے حکمراں بھیگی بلی بنے ووٹ مانگ رہے ہوتے ہیں اور ان سے جو وعدے اپنے منشور میں کرنے کا کرتے ہیں اس کو فراموش کرنے کی بجائے پورا کرنے کے لئے اپنے تمام وسائل اپنے اوپر خرچ کرنے کے بجائے اس کی فلاح اور بہبود پر خرچ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا میں مہذب جمہوری ملکوں میں ووٹ کو عزت بھی ووٹر کی عزت سے منسوب ہوتی ہے جب ووٹر کو عزت ملتی ہے تو ترکی میں ووٹ کی عزت بچانے کے لئے ووٹر خود ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو کر ووٹ کو عزت نہ دینے والوں کے ہاتھ باندھ کر معمولی پولیس کے سپاہیوں کے سامنے عبرت کا نشان بنا دیئے جاتے ہیں مگر جب اس کے مقابلے میں ووٹر یہ دیکھتا ہے کہ ہم سے ووٹ لینے کے بعد حکمراں ہمارے ان کے ووٹ اور ووٹر کے ساتھ سلوک جس طرح کا روا رکھتے ہیں جب وہ ہی سلوک ان حکمرانوں کے ساتھ ان سے زیادہ طاقتور عناصر کرتے ہیں تو ان کی چیخیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ چلانا شروع کر دیتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو اگر ووٹ کو عزت دینے والے سارے احترام و اختیارات بھی نیچے تک ووٹر تک منتقل کر دیتے تو حکمران ووٹ کو عزت دینے کا ہی صرف مطالبہ نہیں کرتے بلکہ ووٹر خود بھی ٹینکوں کے سامنے کھڑا ہو کر بوٹ دانوں سے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا کہ ووٹ کو عزت دو اور پھر ووٹر ہی ووٹ کی عزت کا رکھوالا بن جائے گا کسی میں بھی مجال نہیں ہو گی کہ وہ ووٹ کی عزت کو پامال کرے دوسرے طرف ووٹ کو عزت دینے کے بیانیہ کے مقابلے میں ایک اور بیانیہ جس کو بالکل مختلف بیانیہ کہا جا سکتا ہے وہ فوج کو عزت دو جس کو اس کے مخالفین بوٹ کو عزت دینے کا بیانیہ کہتے ہیں۔
فوج کو عزت دینے کے بیانیہ کو اس لئے اہمیت دی جاتی ہے کہ جب بھی ملک اور معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے تو عوام فوج کو عزت دینے کے بیانیہ پر بھرپور یقین کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے جب بھی ہمارے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے اور سیاستدان آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے تو فوج کے سامنے آئین اور جمہوریت کی دیوار کو پار کرنے کا مشکل مرحلہ ہوتا ہے ایک طرف ملک میں انتشار کی نوعیت دوسری طرف آئین اور جمہوریت۔
فوج کو عزت دینے کے بیانیہ کی طرف داروں کے مطابق انتشار کے ذمہ دار سیاستداں ہوتے ہیں جو آپس میں اپنے اختلافات اس دحد تک بڑھا لیتے ہیں کہ ملک اور معاشرے میں توازن اس حد تک بگڑتا جاتا ہے اور حالات ان کے اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تو لوگ فوج کی طرف دیکھتے ہیں اور فوج جب کوئی فیصلہ کرتی ہے تو ان پر الزام لگنا شروع ہو جاتا ہے کہ وہ آئین و جمہوریت کے خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں ایک طرف فوج دہشت گردی سے نبردآزما ہوتی ہے اور بیرونی دشمن سے مقابلہ کرتی ہے دوسری طرف ملک میں بے چینی کو بھی ختم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اس طرح ملکی سالمیت کو بچانے کے لئے دوسری ذمہ داریاں پوری کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ جسکے وہ اہل نہیں ہوتے۔ فوج کو عزت دینے کے بیانیہ کے خلاف یہ بھی استدلال دیا جاتا ہے کہ اگر فوج ملک کی سرحدوں کے دفاع پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرھے تو معاملات کو سویلین اپنے طور پر سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کا الزام یہ بھی ہوتا ہے کہ فوج کی اندرونی معاملات مداخلت سے ہی سویلین میں آپس میں اختلافات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ حالات ان کے قابو سے باہر ہو کر معاشرے اور ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
یعنی فوج ملک میں انتشار کو قابو پانے کے لئے مداخلت کرتی ہے اس کے بر خلاف اندرونی ملک فوج کی مداخلت کی وجہ سے ہی انتشار پیدا ہوتا ہے اس لئے کچھ سویلین فوج کے اس حد تک مخالف ہو جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک فوج کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ اس کی طاقت اور بوٹ کی عزت ناقابل قبول ہو جاتی ہے اس لئے فوج اپنی آئینی حدود میں رہ کر ہی عزت و احترام کی حامل رہتی ہے جیسا کہ مہذب معاشروں اور ملکوں میں فوجی جوانوں کے لئے لوگ دیدہ دل فرش راہ کئے ہوتے ہیں اور ان کے فوجی جوانوں کے لئے دل سے یہ دعا نکلتی ہے۔
اپنی جاں نظر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا کیا پیش کروں
ان معاشروں میں فوج نے اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کو ہی ان کے مقاصد میں شامل رکھتی ہیں ان کے ملک میں فوج تجارتی سرگرمیوں میں مشغول ہو کر مالی منفعت کے منصوبوں میں اپنے آپ کو نہیں الجھاتی ہے۔
وہاں بحریہ ٹاﺅن اور فضائیہ ٹاﺅن، فوجی فاﺅنڈیشن جیسے ادارے ملکی منفعت کے منصوبوں میں مصروف نہیں رہتی۔ نہ ہی اندرونی سیاست میں مداخلت کرکے اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرتی تو ان کی عزت ملتی ہے اور ان معاشروں کے نوجوان کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کو یکساں عزت ملنی چاہئے ہر ماشرے اور ادارے کو مقدس گائے کا رتبہ ملنا چاہئے۔ جب ان نوجوانوں اور طالب علموں کے سامنے اس طرح کے نعرے بلند ہوتے ہیں کہ ووٹ کو عزت یا فوج کو عزت دو اور ان کے سامنے نوٹ کو عزت ملتی ہے تو وہ بھی اس چور کو عزت کسی طرح دے سکتے ہیں جو سیاستدانوں کی اکثریت میں پائے جاتے ہیں اس ہی طرح فوجی جنرلوں پر بھی یہ ہی الزام لگتا ہے وہ بھی ناجائز طایقوں سے نوٹ بنا کر نوٹ کو عزت دینے کے روادار ہوتے ہیں تو ان کے پاس بھی یہ پیغام پہنچتا ہے کہ نوٹ کو عزت یا چور کو عزت دو۔
ان کے سامنے جب نہ ووٹ کو عزت دی جائے گی اور فوج کی عزت بھی نہیں کی جائے گی تو وہ بھی ان کو عزت دینے کے بجائے نوٹ کو عزت دیں گے اور چور اپنا حکمران بنانے پر مجبور ہو جائیں گے اس لئے سب ادارے ایک دوسرے کو عزت دے کر چور کے خلاف متحد ہو جائیں اور چوروں کو اپنے اندر سے نکال کر ووٹر اور عوام کو عزت دیں تو ملک کو عزت ملے گی اور ان کی اولادیں بھی ان کو عزت دیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں