امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 568

ٹورنٹو میں اے آر رحمان کا صوفی کنسرٹ اور بد انتظامی

ہمیں یقین ہے کہ آپ ممتاز اکیڈیمی انعام یافتہ موسیقار ، اے۔آر۔ رحمان سے واقف ہوں گے۔ ان کا پورا نام اللہ رکھا رحمان ہے، اور وہ ایک نو مسلم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے میں بھارت کے ممتاز صوفی حضرت حاجی علی کی نوازش ہے۔ حضر ت حاجی علی کی درگاہ بمبئی کے ساحلِ سمندر پر ایک چھوٹے جزیرہ پر واقع ہے اور وہاں پہنچنے کے لیئے سمندر کے اتار کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ اے آر رحمان کی ترتیب کردہ ایک قوالی ”پیا حاجی علی، پیا حاجی علی ،پیا ہو“ ان کی اپنے مرشد سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہے۔
دنیا بھر میں مقبول رحمان گزشتہ کئی ماہ سے ایک عالمی کنسرٹ لے کر نکلے ہیں جس کا بنیادی مقصد حال ہی میں ٹامل ناڈ میں آنے والے ایک بحری طوفان کے متاثران کی مدد کرنا ہے۔ یہ کنسرٹ شمالی امریکہ کے کئی شہروں میں منعقد ہو رہے ہیں جن میں ٹورونٹو بھی شامل تھا۔ ٹورونٹو کا کنروٹ یہاں کے معرو ف میٹرو ٹورنٹو کنونشن سنٹر میں منعقد ہوا۔ اعلان کے مطابق یہ ایک صوفی کنسرٹ تھا۔
حیران ک±ن حقیقت یہ تھی کے اسے اس بار ٹورنٹو میں ہر سال منعقد ہونے والی ”جدیدِ روحِ اسلامی“ یا Revival of Spirit Islamic Conference کے ساتھ اس کے اختتامی پروگرام کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ حیرانی یہ تھی کہ یہ کانفرنس عموماً انتہائی بنیاد پرست مسلمانوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں بارہا متنازعہ مقررین کو دعوت دی جاتی رہی ہے۔ اس بار کے مدوعین میں مولانا طارق جمیل بھی شامل تھے۔ کنسرٹ کے اختتام پر اے آر رحمان نے بتاےا کہ انہیں گزشتہ کئی سال سے یہاں آنے کی دعوت دی جارہی تھی لیکن وہ اب آسکے۔
کسی بنیاد پرست اسلامی کانفرنس کے ساتھ ایک ایک صوفی کنسرٹ کا سمبندھ حیران کن تو ہے لیکن اس کو اس طور سمجھا جاسکتا ہے کہ فی زمانہ اسلامی طریقت کو مسلمانوںکے ایک نرم خو مسلک کے طور پر سامنے لایا جا رہا ہے۔ اور اکثر بنیاد پرست اسلامی گروہ اس کی آڑ لے رہے ہیں۔ اس طرح بنیاد پرستی اور طریقت کی ضدِ طرفین پر عمل ہورہا ہے۔ خود اس کنسرٹ میں بنیاد پرست مسلمانوں کے ساتھ جو عموماً ، محمد بن عبدالوہاب، مولانا مودودی، اور امام حنبل کی فکر پر عمل کرتی ہے ایک چمتکار ہو گیا جس کا ذکر آگے ہوگا۔
اے آر رحمان کی عالمی مقبولیت کی بنیاد پر ٹورونٹو اور اسے گردو نواح کے مسلمانوں میں اس پروگرام کے ساتھ بڑی دلچسپی پائی جاتی تھی۔ اس کو کئی کاروباری اداروں کی اسپانسر شپ بھی حال تھی اور ٹورونٹو کے مسلمانوں کے ابلاغِ عامہ کے مختلف ادار ے بھی اس کے ساتھ شریک تھے۔ باوجودیکہ اس کنسرٹ کے ٹکٹ مہنگے تھے جن کی قیمت تین سو ڈالر سے پچاس ڈالر تک تھی، شایقین کی ایک بڑی تعداد نے یہ ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا کہ اس کنسرٹ کے منتظمین میں ٹورونٹو کی ایک معروف پروموشن کمپنی بھی شامل تھی۔
مشاہدے کے مطابق گزشتہ کئی سال سے منعقد ہونے والی Revival of Islamic Spirit کانفرنس ہمیشہ خوش اسلوبی اور خوش انتظامی سے منعقد ہوتی تھی۔ لیکن یہ کنسرٹ شروع ہی سے بد انتظامی کا شکار تھا۔ اس کی ذمہ داری شاید اس کے ان منتظمین پر جائے جو شاید صرف کاروبار ی منفعت پر اس میں شریک تھے۔ ان منتظمین کا اسلامی کانفرنس سے شاید کوئی تعلق نہیں تھا۔
ٹکٹ بہچنے والی ویب سائٹ پر یہ تو کہا گیا تھا کہ آپ پروگرام شروع ہونے سے دو گھنٹے پہلے محلِ وقوع پر پہنچ جایئں لیکن یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ پروگرام کب شروع ہوگا۔ کہیں یہ بھی درج تھا کہ دروازے ساڑھے پانچ بجے شام کھلیں گے۔ اس کنفیوڑن کی بنیاد پر سینکڑوں لوگ تقریباً ساڑھے تین چار بجے ہی سے پہنچنے لگے۔ ان کی آمد کا دباﺅ اسلامی کانفرنس کی رضاکاروں پر پڑا۔ جن کا شاید کنسرٹ کے منتتظمین سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہو پارہا تھا۔ یہ غریب رضاکار بار بار آنے والوں سے معافی مانگ رہے تھے اور اقرار کر رہے تھے کہ اس ضمن میں Disorganization یا بد انتظامی ہے۔ اس کے نتیجہ میں جسمانی طور پر معذورافرااد اور بزرگوں کو سخت تکلیف کا سامنا تھا۔
اس پر ستم ظریفی یہ بھی تھی کہ بعض بظاہر مہذب اور تعلیم یافتہ افراد قطاروں کو توڑنے کی کوشش میں دیگر منتظرین سے الجھ بھی رہے تھے۔شاید انہوں نے اسی شہر میں ان پروگراموں میں کبھی شرکت نہیں کی جہاںہزاروں لوگ صبر کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ، اور ہزاروں کا مجموعہ دیکھتے ہی دیکھتے پروگرام گاہوں میںنظم و ضبط سے داخل بھی ہوتا ہے اور اختتام پر اسی نظم سے منتشر ہو جاتا ہے۔
اس کنسرٹ میں یہ بھی دیکھا گہ ایک طرف تو اسلامی کانفرنس کے منتظمین معذرت کر رہے تھے، لیکن کنسرٹ کے ایک ادارے کے ممکنہ منتظم اپنی آمد کے بعد انتہائی رعونت سے ادھر ادھر گھوم رہے تھے اور انہیں مہمانوں کی تکلیف سے کوئی غرض نہیں تھی۔ گھنٹوں کے انتظار کے بعد یہ کنسرٹ جس کے لیے لوگ تین چار بجے سے منتظر تھے ، کوئی آٹھ بجے شروع ہوا۔ پھر یہ بدمزگی بھی ہوئی کے دنیا کے معروف ترین موسیقار اے آر رحمان کا ساﺅنڈ سسٹم چند منٹ کے لیئے خراب ہو گیا۔ آخر میں یہ بھی کہتے چلیں کہ چمتکار جس کا ذکر ہم نے کیا تھا، وہ ضدِ طرفین جس میں ہمیں لطف آیا وہ یہ تھی کے بنیاد پرست مسلمانوں کی اس کانفرنس میں جو قوالیاں اور نغمے سنے گئے اس میں ’یا رسول اللہ‘ ، یا مولا، یا علی کی نداﺅں کے ساتھ حضرت عباس، حضرت امام حسن و حسین، حضرت نظام الدین، حضرت معین الدین، حضرت حاجی علی، اور آلِ رسول کی منقبتیں شامل تھیں۔
جہاں تک بد انتظامی کا تعلق ہے ، ہمیں یقین ہے کہ اسلامی کانفرنس کے منتظمین آئندہ ان کاروباری منتظمین سے پرہیز کریں گے جنہیں شاید کاروباری منفعت کے علاوہ ایسے پروگراموں سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں