354

پاکستانی انجینئر کا بنایا ہوا الگورتھم سال 2019ءمیں سب سے زیادہ سرچ کیوں کیا گیا؟

دنیا بھر میں مصنوعات کی بر آمدات سے لے کر ان کی منتقلی کے ذرائع کو کنٹرول کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال اب عام ہو چکا ہے۔ جس سے نہ صرف کام کی رفتار اور مقدار بڑھ گئی ہے بلکہ جدید ذرائع رسل و رسائل اور تیز ترمواصلات کی بدولت دنیا ایک عالمگیر مارکیٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
مصنوعی ذہانت زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی معاونت کر رہی ہے جس کی بدولت صنعتوں میں انقلاب برپا ہوا۔ اس مقصد کے لیے سب سے اہم کردار الگورتھم ادا کر تے ہیں جنہیں مصنوعی ذہانت میں کسی بھی درپیش مسئلے کے حل کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک الگورتھم ‘این ای ایچ’ یا نواز، انسکور، ہیم الگورتھم بھی ہے جو اگرچہ 1980ءکی دہائی میں بنایا گیا مگر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ بنیادی طور پر اس الگورتھم کو پاکستانی انجینئر محمد نواز نے کمپیوٹر پروگرامنگ میں درپیش روز مرہ کے مسائل کو حل کرنے اور وقت کا دورانیہ کم کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا۔
محمد نواز نے یہ الگورتھم 80 کی دہائی میں پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اپنے ماسٹرز آف انجینئرنگ کے تھیسز کے لیے بنایا تھا جو وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ اہمیت اختیار کرتا گیا اور آج یہ الگورتھم کمپیوٹر اور شیڈولنگ سے متعلق کورس کی کتابوں کا لازمی حصہ ہے اور اس کے بغیر نصاب ادھورا سمجھا جاتا ہے۔
اس الگورتھم کی اصل اہمیت کا اندازہ 2019ءمیں ہوا جب سائنسی تحقیق کے ایک اہم جریدے ‘اومیگا’ میں اسے رواں برس سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والی تحقیق کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ جس میں پاکستانی انجینئر مرکزی محقق تھے اور اس وقت انجینئرنگ کالج ٹیکسلا سے وابستہ تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت کم تحقیق یا مقالہ جات اومیگا پر 1000 سے زیادہ بار دیکھے گئے ہیں۔
اکتوبر 2019ءمیں انجینئر محمد نواز کو نہ صرف سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا بلکہ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس ریسرچ پیپر پر اکتوبر میں شائع ہونے والی اپنی انجینئرنگ نیوز میں ایک اسٹوری بھی شامل کی جو لگ بھگ 20 برس کے دورانیے میں این ای ایچ الگورتھم کی مقبولیت، ارتقا اور اس پر کی جانے والی نئی تحقیقات سے سامنے آنے والی جدید ایپلی کیشن کو کور کرتی ہے۔
انجینئر محمد نواز لاہور میں پیدا ہوئے اور یو ای ٹی لاہور سے گریجویشن کے بعد پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکا سے انجینئرنگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وطن واپسی کے بعد وہ کچھ عرصے تک یو ای ٹی ٹیکسیلا میں درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ آج کل انجینئر نواز بیرون ملک مقیم ہیں۔
ملنے والے اعزاز سے متعلق چند سوالات پر محمد نواز کے جواب درج ذیل ہیں:
سوال: اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے، 80 کی دہائی میں وہ کون سی شخصیت تھی جس کے متاثر کرنے پر آپ نے اس غیر معمولی فیلڈ کا انتخاب کیا؟
جواب: اسکول کے زمانے میں میرے ریاضی کے اساتذہ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جن میں نویں یا دسویں جماعت میں میرے ریاضی کے استاد جناب شیخ عبدالقدیر قابل ذکر ہیں جنہیں ہم عموماً ‘بابا’ کہا کرتے تھے۔
ا±ن کے پاس ہمیشہ اپنے نوٹس ہوتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں درسی کتب خود خریدنے سے بھی منع کیا ہوا تھا۔ 60 کی دہائی میں ایسے ذمہ دار اور اپنے پیشے سے مخلص اساتذہ بہت کم تھے اور سر عبدالقدیر ان میں سے ایک تھے جو مجھ سمیت سیکڑوں طلبا کے لیے مشعلِ راہ بنے۔ اسی طرح پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں میرے ایک اور استاد پروفیسر ایموری اینسکور بھی متاثر کن شخصیت کے حامل تھے جنہوں نے ماسٹرز تھیسز میں مجھے سپر وائز بھی کیا۔ پروفیسر اینسکور ہی وہ واحد استاد ہیں جنہوں نے مجھے اپنے پیشے سے اخلاص، ایمانداری اور پروفیشنلزم سکھائی۔ میں پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی تحقیق کی اشاعت اور کامیابی کا تمام کریڈٹ پروفیسر انسکور کو دیتا ہوں۔
سوال: ہمیں کسی ایسے واقعے کے بارے میں بتائیے جو آپ کی زندگی کو تبدیل کر دینے کا باعث بنا ہو؟
یہ 1978 سے 1980 کے دوران کی بات ہے جب میں پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور مجھے اپنے دیگر کورسز کے ساتھ علیحدہ سے 6 چھوٹے تحقیقی پراجیکٹ مکمل کرنے تھے جو میرے تھیسز کا حصہ تھے۔ اس میں پروفیسر اینسکور اور پروفیسر ان یانگ میرے سپر وائزر تھے اور میں نے اپنے لیئے شیڈولنگ کے موضوع کا انتخاب کیا تھا۔ مجھے صرف 6 ماہ میں ساری تحقیق کر کے رپورٹ لکھ کر ٹائپ بھی کرنا تھی اور پھر اس کے بعد وہ منظوری کے لیے بھیجی جاتی۔ دو ماہ کا عرصہ اسی طرح گزر گیا مگر میں عملی طور پر کچھ بھی نہیں کر سکا۔
ایک دن انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اس مسئلے کا بالکل ایک اچھوتا حل میرے ذہن میں آیا جو میرے ساتھ پڑھنے والے دیگر طلبائ کی تحقیق سے بالکل مختلف تھا۔ میں نے فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے اس کو کچھ مثالوں پر آزمایا جو بلکل درست ثابت ہوا۔ جس کے بعد میں نے اسے اپنے سپر وائزر پروفیسر اینسکور کے ساتھ شیئر کیا جنہوں نے میری پوری حوصلہ افزائی کی اور مجھے اس کے اعداد شمار وغیرہ کے لیے وقت دیا۔
چونکہ اس 70 اور 80 کی دہائی میں آج کل کی طرح ذاتی کمپیوٹر نہیں ہوتے تھے اور پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہمارے پاس ایک بڑا آئی بی ایم مین فریم تھا لہذا مجھے اپنا سارا کام اسی کمپیوٹر پر سرانجام دینا تھا۔ میں نے دن رات کام کر کے ثابت کیا کہ میرا ‘ہیورسٹک’ یا ذاتی تیارکردہ کمپیوٹر پروگرام مستقبل میں درپیش چیلنجز کے لیے بہت کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔
میں نے اپنا سارا تحقیقی کام صرف تین ماہ میں مکمل کیا اور اس کی ایک کاپی پروفیسر اینسکور کو دی، جنہوں نے ایک، دو ہفتے میں اس کا جائزہ لیکر اسے منظور کر دیا۔ 6 ماہ سے بھی کم وقت میں اپنا تھیسز مکمل کر کے اگست 1980 میں میں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر میری روانگی سے صرف دو ہفتے قبل پروفیسر اینسکور نے مجھے کہا کہ میں اپنے تھیسز کو مختصر کر کے ایک مقالے کی صورت میں لکھ دوں کیونکہ ان کے خیال میں یہ تحقیق کسی مو¿قر سائنسی جریدے میں شائع ہو سکتی تھی۔ لہذا میں نے تیزی سے کام کرتے ہوئے اپنی روانگی سے قبل ہاتھ سے لکھا ایک مقالہ ان کے حوالے کیا اور پاکستان کے لیئے رخت سفر باندھا۔
میری غیر موجودگی میں پروفیسر اینسکور نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس پر مزید کام کرکے نوک پلک سنواری اور اسے ایک سائنسی جریدے کو بھیجا۔ جریدے نے اس میں دلچسپی لیتے ہوئے اس پر تجزیہ کرتے ہوئے کچھ نکات اٹھائے اور مزید وضاحت کے لیے کہا۔ میں اس وقت ٹیکسلا میں درس و تدریس سے وابستہ تھا اور میرے پاس کوئی کمپیوٹر بھی نہیں تھا۔ لہذا یہ کام پروفیسر اینسکور نے اپنے ایک اور شاگرد وائی بی پارک کو دیا جس نے اس پر مزید تحقیق کر کے اپنا ایم ایس انجینئرنگ مکمل کیا۔
1981ءمیں پروفیسر انسکور نے اس مقالے کو اومیگا انٹرنیشنل جرنل آف منیجمنٹ سائنس فار پبلی کیشن کو بھیجا۔ جسے اومیگا نے 1982ءمیں منظور کیا اور جنوری 1983ءتک اس کی اشاعت ممکن ہو سکی۔ اس تمام عرصے میں میرے اور پروفیسر اینسکور کے درمیان رابطہ نہ ہونے کے برابر رہا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آج کل کی طرح ای میل رابطہ عام نہیں تھا اور ہمارا محض خطوط کے ذریعے رابطہ ممکن تھا کیونکہ اس وقت ٹیکسلا کیمپس میں چند ہی انٹرنیشنل ٹیلی فون لائنز دستیاب تھی مگر پاکستان اور پینسلوانیا کے وقت میں فرق کے باعث ان سے بھی رابطہ نہیں ہو پاتا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پروفیسر اینسکور اپنے پیشے سے لگاو¿، ایمانداری اور فرض شناسی کی ایک ایسی مثال ہیں جو کم از کم پاکستانی تعلیمی نظام میں عنقہ ہے۔ اگر وہ چاہتے تو با آسانی اس تحقیق اور مقالے کا سارا کریڈٹ خود لے سکتے تھے مگر انہوں نے ذاتی طور پر اتنی بھاگ دوڑ کے باوجود میرا اور یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا کا نام ساتھ دیا جس سے میں اس وقت بحیثیت استاد وابستہ تھا۔
سوال : این ای ایچ الگورتھم کیا ہے اور یہ مشین میں درپیش مسائل کے حل میں کس طرح معاونت کرتا ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے میں عام قاری کو سمجھانے کے لیے کچھ اصطلاحات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
پاکستانی انجینئر نے یہ الگورتھم 80 کی دہائی میں پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اپنے ماسٹرز آف انجینئرنگ کے تھیسز کے لیے بنایا تھا۔ تصویر: محمد نواز
1۔ سیکوینس یا ترتیب وار: مشین لرننگ میں سیکوینس ایک ایسی ترتیب کو کہتے ہیں جس میں متعلقہ کام سر انجام پاتا ہے جس میں ہر اسٹیج کی ایک خاص ترتیب ہوگی جسے آگے پیچھے نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً کسی فاسٹ فوڈ اسٹور پر صارف کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوتا ہے تو ہر صارف کو اس کی باری آنے پر ہی آرڈر ڈلیور کیا جاتا ہے۔ جتنی زیادہ مشینیں یا کمپیوٹر دستیاب ہوں گے کام اتنی جلدی اور رفتار کے ساتھ سرانجام پائے گا۔
2۔ فلو شاپ: فلو شاپ کی اصطلاح ایک ایسے سسٹم کے لیے استعمال کی جاتی ہے جہاں کوئی کام مختلف مشینوں میں سرانجام پاتا ہے جسے پروسز بھی کہا جاتا ہے۔ مثلاً ایک لانڈری میں کپڑے دھونے کے لیے پہلے واشر میں ڈالے جاتے ہیں، اس کے بعد سکھانے کے لیے ڈرائر اور آخری میں استری کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام کام مشینوں سے ترتیب وار جس فلو میں سرانجام پاتے ہیں اسے فلو شاپ یا پی ایف ایس پی کہا جاتا ہے۔
3۔ شیڈولنگ: کسی بھی مشین میں کام سر انجام پانے کا ایک مخصوص وقت ہے جس میں ابتدا سے اختتام تک ہر اسٹیج کا وقت متعین ہوتا ہے اور مشین اسی مدت میں کام سرانجام دینے کی پابند ہوتی ہے۔ محققین جب کسی خاص پروجیکٹ کا آغاز کرتے ہیں تو فلو شاپ یا بہترین طریق کار کا انتخاب کرنے کے لیے کم وقت میں سرانجام پانے والی سیکوینس کا انتخاب کرتے ہیں۔
اب آپ کے سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ سب سے پہلے 1954ءمیں جانسن ایس ایم نے الگورتھم کے ذریعے پی ایف ایس پی کا ایک حل دریافت کیا تھا مگر اس میں صرف دومشینوں کے ساتھ کام سر انجام دینے کی گنجائش تھی۔ آج ہم جانتے ہیں کہ محض دو نہیں بلکہ سیکڑوں مشینوں کے ذریعے لا تعداد کام سرانجام دیئے جا سکتے ہیں۔
مگر زیادہ مشینوں کے ساتھ یہ مسئلہ کچھ پیچیدہ رہ جاتا ہے۔ اس کے حل کے لیے میں نے این ای ایچ الگورتھم بنایا جس کے ذریعے مشینوں کے ذریعے کام سرانجام دیتے ہوئے کام کے دورانیے کو کم کیا جاسکتا ہے جس میں سرانجام پانے والے کام اور مشین دونوں کی ہی کوئی مخصوص تعداد مختص نہیں ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس الگورتھم میں بظاہر چھوٹی سیکوینس کے حل کے لیے بالکل سادہ سی ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر ہمیں متعدد مشینوں سے 10 کام سرانجام دینے ہوں تو ہمارے پاس 55 ممکنہ سیکوینس ہوں گی۔ وقت کے ساتھ بہت سے محققین نے اس الگورتھم پر کام کیا اور ان سب نے ہی اسے سادہ اور بہترین پایا۔ یہ چند لائنوں پر مشتمل سادہ سا الگورتھم ہے جس میں لمبی چوڑی کوڈنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
سوال: این ای ایچ الگورتھم اب کمپیوٹر کی نصابی کتابوں کا ایک لازمی حصہ ہے مگر پاکستان میں درسی کتب یا سائنسی جرائد میں آپ کی کاوشوں کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ آپ کے خیال میں پاکستان میں سائنسی تحقیق کی جانب اکیڈمک اور میڈیا دونوں کی بے رغبتی کیسے ختم کی جا سکتی ہے؟
سب سے پہلے تو میں یہ واضح کردوں کہ این ای ایچ الگورتھم نیا نہیں ہے مگر وقت کے ساتھ اس پر تحقیق سے سامنے آنے والی ایپلیکیشنز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جسے گوگل اسکالر اور اسکوپس میں دیکھا جاسکتا ہے۔
پچھلے دس برسوں کے دوران بہت زیادہ تحقیق کی گئی ہے اور زیادہ تر تحقیقی مقالہ جات چین سے سامنے آئے ہیں جبکہ ایران سے بھی متعدد محققین اچھا کام کر رہے جو سائنس جرنلز میں شائع ہو رہا ہے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ زیادہ تر پاکستانیوں کی تحقیق جو سامنے آرہی ہیں وہ چین کے تعلیمی اداروں سے منسلک سائنس دانوں کی ہے۔
پاکستان میں سائنس کو مقبول بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں عام افراد صرف وہی چیزیں دیکھنا پسند کرتے ہیں جن میں انہیں دلچسپی ہو، مثلاً اگر کوئی نئی دوا یا ویکسین دریافت ہوتی ہے تو ٹاپ میڈیا ہاو¿سز اس خبر کو نشر کرتے ہیں مگر اس میں دوا کی افادیت وغیرہ کے بارے میں تو بتایا جاتا ہے مگر سائنسدان یا محقق کو کوریج نہیں دی جاتی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں سائنسی جریدوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ ٹاپ میڈیا ہاﺅسز جیسے ڈان یا دیگر ادارے ہفتہ وار سائنسی مضمون شائع کریں۔
اگرچہ انہیں صرف ایک پڑھا لکھا طبقہ ہی پڑھے گا مگر آہستہ آہستہ دیگر حلقوں میں بھی شعور اور رغبت بڑھنے لگے گی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں سائنسدان، انجینئرز، محققین، ماہر ریاضیات وغیرہ باقاعدگی کے ساتھ دیگر تعلیمی اداروں کا دورہ کریں اور ملکی سطح پر ہونے والی سائنسی تحقیق اور پیش رفت کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کریں جس کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن، نیشنل سائنس فاو¿نڈیشن جیسے اداروں کو آگے آکر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
سوال: این ای ایچ الگورتھم کی کسی خاص ایپلیکیشن کے بارے میں بتایئے جو سب سے زیادہ مقبول اور فائدہ مند ثابت ہوئی ہو؟
یوں تو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس الگورتھم پر بہت کام ہوا ہے اور متعددایپلی کیشنز سامنے آچکی ہیں ان میں سب سے اہم گم شدہ سیاحوں کی تلاش میں معاونت ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں دنیا بھر میں سیاحوں کے لاپتہ ہو جانے کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے لیے مختلف ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہیں جن سے فضا سے دور دراز مقامات کا جائزہ لیکر سیاحوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کی جا سکتی ہے جس سے ریسکیو آپریشن اب نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ این ای ایچ الگورتھم کو استعمال کرتے ہوئے جو طریق? کار بنایا گیا ہے اس میں سیاح کی مکمل درست لوکیشن معلوم کی جاسکتی ہے جو وقت کے ساتھ موسم اور دیگر عوامل کی وجہ سے مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
سوال: گوگل نے کچھ ماہ پہلے کوانٹم کمپیوٹنگ میں نئی انقلابی ایجاد کا دعویٰ کیا ہے جس سے نئے کمپیوٹرز تیز تر رفتار کے ساتھ کام سر انجام دے سکیں گے۔ آپ کے خیال میں مصنوعی ذہانت کی یہ معراج یا سپر اے آئی انسان کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟
مصنوعی ذہانت اس وقت تک انسان کے لیے فائدہ مند ہے جب تک اسے فلاحی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہے۔ کسی بھی ایجاد کے فوائد اور نقصانات دونوں کا انحصار اس کے استعمال پر ہوتا ہے جیسے نیوکلیئر ٹیکنالوجی ہے۔ اس کی مدد سے نہ صرف مختلف امراض کا علاج ممکن ہے بلکہ اس سے بجلی بھی تیار کی جاتی ہے۔ مگر دوسری جانب اسی ٹیکنالوجی سے پورے شہر لمحوں میں برباد کر کے لاکھوں افراد کو موت کی نیند سلایا جاچکا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں