پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 111

پاکستانی عدلیہ کا تاریخ ساز فیصلہ

پاکستان کی عدالت عالیہ نے انتہائی گمبھیر حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنا تاریخ ساز فیصلہ رقم کیا ہے۔ اس وقت حکومت اور خاص طور پر نواز لیگ کی جانب سے عدلیہ پر جس طرح تنقید کی جارہی ہے اور سابق اور حاضر جج صاحبان سے متعلق بیانات دیئے جارہے ہیں وہ نہ صرف عدلیہ کے وقار کو مجروح کرتے ہیں بلکہ عوام میں اپنی انصاف کرنے والے اداروں کے لئے شدید بے چینی اور غم و غصے کو سوا دے رہے ہیں۔ ایسے کڑے وقت میں عدلیہ نے اس دباﺅ کا شکار ہونے کے برعکس اپنی وہ ذمہ داری جو آئین کی پاسداری کی صورت میں اس پر عائد ہوتی ہے، کا مکمل تحفظ کیا اور اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ عدلیہ کا وقار اور سالمیت برقرار رہے، یہ فیصلہ پاکستانیوں کے لئے ایک خوش آئند خبر ہے جو پچھلے گیارہ ماہ سے نا امیدی اور مایوسی کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ عدالت عالیہ نے 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں انتخابات منعقد کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ عدلیہ کے فیصلے کا احترام کس حد تک کیا جائے اس کے عکس آنے کی ابتدا ہو چکی ہے۔ بظاہر الیکشن کمیشن اس فیصلے پر تعمیری اثبات کا مظاہرہ کیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی حکومت کے قانونی ماہرین نے جو تاویلیں پیش کرنی شروع کی ہیں اور وزراءکا جو طرز عمل سامنے آرہا ہے وہ نہ صرف حکومت کی کمزوریوں اور خوف کو واضح کررہا ہے بلکہ درپردہ ہونے والے کچھ فیصلوں کی نشاندہی بھی کررہا ہے۔
جو مناظر اس وقت سامنے ہیں وہ غمازی کررہے ہیں کہ حقیقت وہ نہیں جو بظاہر سامنے ہے جس طور پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت اور مقتدرہ انتخابات سے گریز کی نشاندہی کررہی ہے اس کے تانے بانے کسی اور طرف توجہ دلا رہے ہیں۔ یہ صورت حال پاکستان کے مستقبل کے لئے خطرناک ترین ہو سکتی ہے۔ مغربی ممالک اور خاص طور پر امریکہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور نیوکلیئر پاور کی استعداد سے کلی طور پر آگاہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہ بدقسمتی بھی حقیقت ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے حکومتی اشرافیہ کے ہاتھوں ریاست پاکستان کی تعمیر کے بجائے تسخیر کا سلسلہ جاری رہا۔ حالات پاکستان کی سالمیت اور استحکام پر شدید طور پر اثر انداز ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت اپنی 75 سالہ تاریخ میں بدترین سطح پر ہے۔ آئی ایم ایف مستقل اپنی شرائط پر بضد ہے۔ پاکستان کو کمزور کر دینے والی حکمت عملیاں کھل کر اب سامنے آنے لگی ہیں۔ پاکستانی عوام بدحالی سے نڈھال ہو چکی ہے۔ موجودہ حکومت جن عوامل کے تحت وجود میں آئی ہے اس کی تفصیلات بھی عیاں ہونے لگی ہیں۔ مہنگائی سے متعلق احتجاج کے پردے میں لپٹی ہوئی اس کارروائی کے تمام مددگاروں نے کن شرائط اور یقین دہانیوں کے عوض پاکستان کو سیاسی، معاشی اور اقتصادی میدان میں پیچھے دھکیل دینے کی حامی بھری ہے۔ تاریخ اس کا یقینی طور پر بھرپور احاطہ کرے گی۔
اتحادی حکومت کی کارکردگی سیاسی فیصلوں نے سفارتی حلقوں میں بھی پاکستان کو ایک نازک مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس وقت 13 جماعتی اتحادی حکومت مکمل طور سے عمران فوبیا کی یرغمال نظر آتی ہے۔ حکومتی مشینری صرف اور صرف اس وقت عمران خان سے چھٹکارے کے ایجنڈے میں مصروف نظر آتی ہے۔ زمینی حقائق اس وقت برملا اظہار کررہے ہیں کہ تحریک انصاف ملک کے طول و عرض اور عالمی سطح پر جہاں بھی پاکستانی مقیم ہیں اپنے قدم جما چکی ہے۔ گزشتہ دس ماہ کے دوران ملک کے اندر ہونے والی کئی ضمنی انتخابات اس کا اعلان کر چکے ہیں۔ آنے والی خبروں کے مطابق اس وقت حکومت کی واحد خواہش اور کوشش یہ ہی ہے کہ کسی نہ کسی طور عمران خان کو سیاسی منطر سے ہٹا دینے کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔ گزشتہ 10 ماہ میں عمران خان پر 77 مقدمے اور کئی ایف آئی آر بن چکی ہیں۔ تحریک انصاف کے کارکن اور قانونی ماہرین بارہا اس کا اعلان کر چکے ہیں کہ ایک دفعہ پھر ان پر قاتلانہ حملے کی اسکیم بنائی جا چکی ہے۔ دور دراز علاقوں میں عدالتوں کی پیشیاں بھی انہی حصے کے طور پر سمجھی جارہی ہیں۔
اچھنبے کی بات اور ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ عام طور پر حزب اختلاف اپنی پوری تراکیب کے ساتھ حکومت کا پیچھا کررہی ہوتی ہے یا ان کے درپے ہوتی ہے مگر اس وقت ایک عجیب مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ حکومت اور اس کے تمام 13 اتحادی مل کر ایک اپوزیشن کی جماعت کا نہ صرف پیچھا کررہے ہیں بلکہ صرف اس خوف سے انتخابات سے گریزاں ہیں کہ وہ تمام مل کر بھی تحریک انصاف کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ گویا اس موجودہ حکومت اور ان کی جماعتوں کو یہ اپنا آخری دور اقتدار نظر آرہا ہے۔ وزیر اعظم اور وزراءسے لے کر تمام چھوٹے بڑے مشیران صرف عمران خان سے متعلق بیانات کو ترجیح دیتے ہیں۔ تمام نشریاتی میڈیا صرف عمران خان کے متعلق خبروں سے پر ہے۔ پیمرا عمران خان کی ڈائریکٹ نشریات پر پابندی لگانے کے بعد ARY کا لائسنس منسوخ کر چکا ہے۔ جلسوں میں صرف عمران خان سے متعلق لیکچر دیئے جاتے ہیں، گویا ثابت یہ ہوا کہ عمران خان حکومتی بنچ پر براجمان نہ ہونے کے باوجود پورے پاکستان پر حکومت کررہا ہے۔ اتحادیوں کی ہر سانس میں صرف اس کی گنگناہٹ سنائی دیتی ہے۔ صبح و شام صرف اس کی تسبیح میں گزرتے ہیں۔ 80 فیصد عوام اس کے ساتھ کھڑے ہیں اور حق میں نعرے لگا رہے ہیں تو یہ پھر اعتراف کر لینا چاہئے کہ کپتان جم کر میچ کھیل رہا ہے۔
الیکشن سپریم کورٹ کی ہدایتوں کے باوجود انجام پاتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ حکومت اس وقت دو دفعہ الیکشن کروانے کی مالی استطاعت شاید رکھتی بھی نہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ ایک ایسا فیصلہ کر لیا جائے جس میں پورے ملک میں عام انتخابات ہو سکیں۔ جس کسمپرسی کے حالات سے پاکستان اس وقت گزر رہا ہے خاص طور پر معاشی معاملات میں، ایسے وقت میں تو کوئی بھی آنے والی حکومت دشوار کن حالات کا سامنا کرے گی۔ تحریک انصاف کے لئے شاید یہ تاخیر ان کے حق میں بہتر ہی ثابت ہو۔ موجودہ وزیر خزانہ جس طور سے پریس کانفرنس کررہے ہیں ان کا جھنجھلایا ہوا انداز بہت کچھ منعکس کررہا ہے۔
پی ڈی ایم حکومت شدید طور پر شکنجہ میں پھنسی ہوئی نظر آتی ہے۔ پی پی پی بارہا یہ دہرا رہی ہے کہ ہم صرف حکومتی ساتھ ہیں، پی ڈی ایم کے نہیں۔ انہی کالموں میں پہلے یہ لکھا جا چکا ہے کہ شہباز شریف ”مواقعاتی“ وزیر اعظم ہیں۔ یہ عہدہ دوبارہ ان کے ہاتھ آئندہ کبھی نہیں لگے گا اس لئے وہ تمام حصہ داروں کو مکمل طور پر مطمئن رکھنے کی کوشش کریں گے اور کررہے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر تاکہ اقتدار کا دورانیہ طویل ترین ہو سکے۔
امید یہ کی گئی تھی کہ مقتدر ادارے اپنی غیر وابستگی کے اعلان پر قائم رہیں مگر حالات کچھ نہ کچھ اور ممکنات کی طرف اشارے دے رہے ہیں۔ جس آزادی سے ن لیگ ببانگ دہل اداروں پر تنقید کرتی نظر آرہی ہے اور کسی توہین کی مرتکب نہیں ہو رہی۔ جس طرح ان وعدوں کو دہرایا جارہا ہے جس کے تحت عمران خان کو منظر سے ہٹا دینے کا راستہ بنانا تھا۔ جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی انتخابات میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے، الیکشن کمیشن اور صوبوں کے گورنر اور وزیر اعلیٰ جن باہم مشوروں میں مصروف ہیں۔ تحریک انصاف پر جن طرح مقدموں کی بھرمار ہے یہ تمام شکوک و شبہات بہت سے دروازے کھول رہے ہیں۔ یہ بھی نظر آتا ہے کہ اتحادی حکومت عوام کی عدالت سے مایوس ہو جانے کے بعد ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہے کہ جس سے لامحالہ فوج کو مداخلت کرنا پڑ جائے۔ یہ تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ موجودہ حکومت اور اس کے حواری صرف اور صرف اقتدار کے خواہاں ہیں۔ ریاست پاکستان کا بگاڑ یا تعمیر ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں