امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 370

پاکستان کا المیہ: غداری کے تمغے

باخبر پاکستانی روز ہی شہریوںپر غداری کے الزامات لگتے دیکھتے ہیں۔ کل کے ہیرو آج غدار قرار دیئے جاتے ہیں ، تو کل یہی غدار ہیرو بنا دیئے جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر غور کریں تو نظر آئے گا کہ سب سے پہلے جس شخص کو غدار قرار دیا گیا وہ صوبہ سندھ کے پاکستان دوست رہنما ، جی ایم سید تھے۔ان کو سمجھے بغیر ہم شاید نہ سمجھ پایئں کہ پھر بنگالی، بلوچی، پشتون، سرایئکی ، کیوں غدار قرار دیئے گئے۔ زیادتی ہوگی اگر ہم اس میں پنجابی نژاد فیض، اور حبیب جالب کو نہ شامل کریں۔ وہی فیض کہ جنہوں نے لکھا تھا، ”نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں ، چلی ہے رسم کہ سر نہ کوئی اٹھا کے چلے۔ “
جی ایم سید ، کے بارے میں پاکستانی عوام کو سالوں سے یہ سمجھایا گیا ہے کہ وہ پاکستان توڑنے اور ایک آزاد سندھی ریاست بنانے کی بات کرتے تھے۔ یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے۔ جی ایم سید، ایک سندھی سیاسی رہنما تھے، جیسے نواز شریف ایک پنجابی رہنما ہیں ، یا جیسے ولی خان ایک پختون رہنما تھے، یا جیسے شیخ مجیب ایک بنگالی رہنما۔ یہ سب لوگ اولاً اپنے صوبوں کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ یہ سب رہنما جب اپنے لوگوں اور اپنے صوبوں کے حقوق کی بات کرتے تھے ، تو ان کی نظر میں قراردادِ پاکستان رہتی تھی۔ وہ قرار داد ، جس کی اصل روح اور الفاظ سے شہریوں کو قصداً بے خبر رکھا جاتا رہا ہے۔ اس قرارداد کے بنیادی اصولوں کا اقتباس اس ترجمہ میں ملاحظہ کیجیے :
ٍ۔۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس، نہایت غور و فکر کے بعد اس اس ملک میں صرف اس آئین کو قابلِ عمل اور مسلمانوں کے لیئے قابلِ قبول قرار دیتا ہے، جو جغرافیائی اعتبار سے متصل علاقوں میں حد بندی کا حامل ہو،اور بوقتِ ضرورت ان میں اس طرح ردو بدل ممکن ہو کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو ، انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کر دیا جائے، اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خود مختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔
۔۔ان وحدتوں اور ہر علاقائی آئین میں اقلیتوں کے مذہبی، اقتصادی، سیاسی، اور ثقافتی مفادات اور حقوق کے تحفظ کی خاطر ایسی اقلیتوں سے مشورے کے بعدموئڑتحفظات شامل ہوں اور ہندوستان کے ان تمام حصوں میں جہاں مسلمان آبادی کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں، تحفظ کا یقین دلایا جائے۔
یہ وہ بنیادی شقیں ہیں جو پاکستان میں شامل ہر صوبہ کے شہریوں کو وفاق میں شمولیت کے ساتھ خود مختاری اور حاکمیت کا حق عطا کرتی ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعدہی سے ان اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا، اور سالہا سال تک آئین سازی میں تاخیر کی جاتی رہی۔
جی ایم سید ہمیشہ سے سندھ کے لوگوں کی خود مختاری اور حاکمیت کی بات کرتے تھے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسی ریاست کی بات کرتے تھے جس میں قانون مذہب کی بنیاد پر نہ بنے،ا ور ہر پسماندہ شہری کو بنیادی حقوق اور احترام حاصل ہوں۔ انہوں نے اپنی سیاسی جدو جہد خلافت تحریک کے کارکن کی حیثیت سے شروع کی، اور بعد میں متحدہ سندھ پارٹی میں شال ہوئے۔ اپنی سیاسی جدو جہد میں وہ دیگر رہنماﺅں کے ساتھ ملک کر سندھ کے علاقہ کو بمبئی صوبہ سے الگ کروانے کے بعد کامیاب ہوئے اور پہلی سند ھ اسمبلی کے رکن منتحب ہوئے۔
انہون نے سنہ انتالیس میں محمد علی جناح کی خواہش پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے چند سال بعد انہیں قائدِ اعظم نے سندھ میں سلم لیگ کی مجلسِ منتظمہ کا چیئر پرسن نامزد کیا۔ انہوں نے دیگر رہنما ﺅں کے ساتھ رات دن کی محنت سے سندھ میں مسلم لیگ کو بے پناہ مقبول کروادیا۔ سنہ تینتالیس میں انہوں نے سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان پر مبنی پاکستان کی حمایت میں اولین قرار داد پیش کی۔ انہیں اسی سال سندھ مسلم لیگ کا صدر مبتخ کیا گیا۔
سنہ چھالیس میں انہیں مسلم لیگ کی پارلیمنٹری کمیٹی کا چیئر پرسن بنایا گیا، جس کی ذمہ داری آئندہ انتخابات میں امیدوار نامزد کرنا تھا۔ اس کے غور وخوذ کے دوران پارلیمنڑی کمیٹی میں پھوٹ پڑ گئی، اور کمیٹی کی اکثریت ان کے خلاف ہوگئی۔ قائدِ اعظم نے اس موقع پر جی ایم سید کا ساتھ نہیں دیا۔سندھ پارلیمنٹری کمیٹی توڑ کر مرکزی مسلم لیگ نے براہِ راست نمائندے نامزد کر دیئے۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جی ایم سید کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا گیا۔
یہ اختلاف بڑھتا چلا گیا۔ اور پاکستان بننے کے فوراً بعد سے جی ایم سید کو قید کیا گیا اور وہ وقفوں وقفوں مقید رہتے رہے۔ لیکن ہر دور میں وہ سندھ کے حقوق اور خود مختاری کی جدو جہد کرتے رہے۔ ان پر بارہا غداری کے الزامات لگتے رہے۔ وہ ایک سیکیولر ریاست کا خواب دیکھتے تھے جس میں ہر اکائی کو خودمختاری حاصل ہو۔ گو انہیں تیس برس سے زیادہ قید رکھا گیا لیکن کبھی کسی عدالت نے انہیں غدار قرار نہیں دیا۔ غداری کے یہی الزامات پاکستان کے ہر اس رہنما پر لگتے رہے ہیں جو عوام کے حقوق اور صوبائی خود مختاری کی بات کرتا ہے۔ ہماری دانست میں ہر شہر ی کو قراردادِ پاکستان کی روح پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیئے کہ غداری کے الزامات نے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں