تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 381

پاکستان کے بدنسل عہدیدار

بیان کیا جاتا ہے ایک شخص جو ننگے سر ننگے پیر تھا، جس کے پاس کوئی سواری تک نہ تھی، منزل مقصود جانے والے قافلہ کے ساتھ سفر کررہا تھا، وہ اپنی دھن میں کہتا جاتا تھا کہ ”نہ میرے پاس کوئی سوار ہے نہ میرے پاس مال و اسباب، نہ مجھ پر کوئی بوجھ، نہ میں کوئی عالم، نہ کسی کا غلام، مجھے کوئی فکر ہے نہ غم، آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہوں۔“
ایک شاہانہ سواری والے عیاش امیر شخص نے اس کو دیکھ کر کہا ”اے شخص تو اس حالت میں ہمارے ساتھ کہاں جارہا ہے؟ راستہ کی سختیاں تجھے ہلاک کر دیں گی“ اس غریب انسان نے اس آرم پسند عیاش کی بات پر توجہ نہ دی اور برابر سفر کرتا رہا۔ راستہ کی شختیوں سے لڑتا رہا مگر آرام پسند عیاش ان سختیوں کا عادی نہ تھا، معمولی تکلیف کے بعد وہ مر گیا۔ اس پر بے نوا مسافر اس کی میت پر آیا اور کہا ہم تو اس سختی میں بھی زندہ ہیں اور تو ہر طرح کی آسائش میں رہتے ہوئے بھی مارا گیا، کیا ہوئی تیری دولت اور مرتبہ۔
امریکہ کی عدالت میں ایک وکیل نے کہا کہ پاکستانی وہ قوم ہے جو چند سکوں کی خاطر اپنی ماں بہن کو بھی فروخت کر دیں۔ یہ بات سن کر پوری پاکستانی قوم میں غم و غصہ پیدا ہو گیا لیکن قوم کے ایک بڑے حصہ میں اس وکیل کی بات کا ذرّا بھر بھی اثر نہیں ہوا کیونکہ ان کا تعلق حقیقی طور پر ان ہی لوگوں میں تھا جس کا اشارہ اس امریکی وکیل نے کیا تھا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری قوم میں ان جیسے بے حس اور بے غیرت لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے معمولی فائدہ کی خاطرہ ملک اور قوم کا بے تحاشہ نقصان پہنچانے سے لمحہ بھر گریز نہ کریں۔ یہ تمام افراد قوم کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو حکمرانوں میں مراعات یافتہ شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں ملک کے تمام وسائل کے ساتھ ساتھ سارے اختیارات ہوتے ہیں اور یہ عوام کے لئے بڑے بڑے دعویٰ کرتے کرتے اس منصب تک پہنچتے ہیں اور جب یہ ان عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں تو یہ ملک اور قوم کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جس کا اظہار امریکی وکیل نے ایک عدالت میں ایمل کانسی کی گرفتاری کے موقع پر کیا تھا کہ یہ قوم ہے جو چند سکوں کی خاطر اپنی ماں بہن کو بھی فروخت کردیں۔
جی ہاں یہ وہ ہی قوم کے افراد ہیں جو بڑے عہدوں اور مالی منفعت کی خاطر اپنے سے بڑے عہدیدار حاکم کے پاس اپنی بہن بیوی کو بھی پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے اس طرح ان عہدیداروں کی ترقی میں ان کی بیگمات بہنوں کی سفارشوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔ حکمرانوں کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کسی کی سفارش اسکندر مرزا کی بیوی ناہید اسکندر مرزا نے کی اور ان کی درخواست کس طرح حاصل ہوئی۔ اسی ہی طرح یحییٰ خان کے پاس جنرل رانی اور قومی ترانہ کس کی سفارش لے کر گئیں اور اس ہی طرح جنرل جیلانی سے نورجہاں نے کس کی سفارش کی یہ تو چند بڑی اور پرانی کہانیاں زبان زدعام ہیں جن کی روداد کی ہمارے صحافیانہ حلقوں میں ایک عرصہ سے گونج رہی ہیں۔ نہ معلوم یہ سچی داستانیں ہیں یا کسی کے بغض میں نکلنے والے جذبات اور خیالات اس ہی طرح اعلیٰ عہدیداروں کے پاس ان کے نچلے درجے کے اب تک عہدے دار بھی اپنی بیوی اور بہنوں کے ذریعہ سفارشیں کروا کر اقتدار اور اختیارات میں ترقیاں حاصل کرتے ہیں ملک اور قوم کے وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور جب ان کو ان وسائل کا نگہباں بنا دیا جاتا ہے تو وہ ملک اور قوم کی دولت کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو جس کی موجودہ مثال براڈشیٹ کے کھیل میں سامنے آرہی ہے۔ جس میں ہماری ملک اور قوم کے ذمہ داروں نے کس طرح سازش کرکے براڈ شیٹ سے اسے فالٹی یا غلطیوں سے بھرپور جان بوجھ کر معاہدے کئے جس کا سراسر نقصان ملک اور قوم کو اٹھانا پڑا اور جب اس معاہدے کو ختم کرنا پڑا تو اس کا بھی خمیازہ قوم کو اٹھانا پڑا اور اس کا جرمانہ بمعہ سود ادا کرنا پڑا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی اس جرمانے کی ادائیگی کا معاملہ طے کرنے والوں نے قوم سے اپنا کٹ وصول کرنے کا موقع کو ضائع کرنے سے ذرا بھی نہ چوکے۔
ریکوڈک کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے قوم کو تقریباً چھ ارب ڈالر کی جرمانہ کی سزا ہو چکی ہے اتنی رقم کی خاطر ملک اور قوم کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے بعد جو رقم حاصل ہوئی اتنی ہی رقم جرمانے کی صورت ریکوڈک کو ادا کرنی پڑ رہی ہے جس کا خمیازہ قوم کے غریب عوام بجلی، گیس اور مہنگائی کی صورت ادا کررہے ہیں۔
دوسری طرف اپنی ماں بہن کو قوم فروخت کرنے والے اس طرح کے غیر ملکی معاہدے کرکے چند سکے اپنی جیبوں میں ڈال کر شرم غیرت کو اپنے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیتے اس طرح انہوں نے اپنے کرتوتوں سے ثابت کردیا کہ امریکی وکیل نے ان کے بارے میں بالکل درست کہا کہ یہ چند سکوں کی خاطر اپنی ماں بہن کو بھی فروخت کرنے میں کسی قسم کی شرم و غیرت محسوس نہ کریں۔ ایک طرف یہ مراعات یافتہ قوم ہے جس کی وجہ سے ریکوڈک کے چھ ارب ڈالر، براڈ شیٹ کے 28 ملین ڈالر دوسری طرف روز ویلٹ ہوٹل کے ساتھ پیرس کا دوسرا ہوٹل اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے جہاز کو لاہور میں ضبط کیا ہوا ہے۔ یہ ہی بے غیرت ہیں دوسری طرف وہ قوم ہے جس کے اوپر آئی ایم ایف کے چھ ابر کے قرضہ کی بدولت گیس، بجلی اور مہنگائی کا بوجھ اپنے ننگے بدن سر پر اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس پاکستان میں یہ ہی دو قومیں اپنا وجود رکھتی ہیں ایک قوم جس کا بڑا حصہ حق ہلال کی کمائی کے باوجود مہنگائی میں سسک سسک کر زندگی کی گاڑی چلا رہا ہے اور دن بہ دن ان کی زندگی کو بد سے بدتر بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کا گلا گھونٹ کر خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں سمیت نہروں میں کود کر جان دے رہی ہیں، عوام غربت کی انتہائی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی مشکل سے حاصل ہو رہی ہے، زندگی کی دھوپ کو اپنے ننگے سرد بدن پر جھیل کر بھی ملک اور قوم سے محبت کے دعویٰ کررہے ہیں اور پاکستان کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یعنی ان کی حالت اس مسافر کی سی ہے جس کے پاس کچھ مال و اسباب نہیں ہے اور اپنے مقصد کی خاطر ہر تکلیف کو خوشی خوشی جھیل رہا ہے۔ دوسری طرف وہ حرام خور قوم کے افراد ہیں جنہیں قوم نے ہر طرح کی آسائشوں سے نوازا، وہ بڑے بڑے عہدے حاصل کرکے قوم کی دولت پر عیاشیاں کررہے ہیں، خود بھی ملک کے وسائل کو بڑھ چڑھ کر لوٹ رہے ہیں اور غیر ملکی اداروں کو بھی اس لوٹ مار کے مال میں شامل کرکے اپنا معمولی حصہ بھی وصول کررہے ہیں اس طرح ان کی لوٹ مار کی دولت غیر ملکی بینکوں میں محفوظ رکھی ہوئی ہے، ان وسائل کی شاہ خرچیاں کررہی ہے، یہ ہی وہ حرام خور ہیں جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ماں بہنیں کو بھی چند سکوں کی خاطر فروخت کرنے سے گریز نہ کریں۔ ان کی ناجائز دولت سے جو انہوں نے قوم کا خون چوس کر اپنی اولادوں کے لئے بیرون ممالک میں ناجائز طور پر محفوظ کی ہوئی ہے۔ یہ دولت ان کے لئے اور نہ ہی ان کی اولادوں کے لئے فائدہ مند کبھی ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہ دولت ان کے اوپر سانپ بن کر لوٹے گی ان کی اولاد میں بدعنوانی کے جراثیم پیدا کرے گی اور وہ بے راہ روی کا شکار ہو کر ان کی نسلوں کو برباد کرکے رکھ دے گی۔
ان کی اولاد بیرون ممالک میں اس دولت کو عیاشی میں ضائع کر دے گی۔ یہ اپنا مقابلہ عرب شہزادوں سے کرنے میں ہمیشہ ناکام ثابت ہوں گے کیونکہ عربوں کے تیل کے خزانے کبھی نہیں سوکھیں گے مگر ان کی ناجائز دولت شاہ خرچیوں میں ایک وقت ختم ہو جائے گی اور ان میں اور ان کی اولادوں میں وہ بیماریاں چھوڑیں جائیں گی جن سے ان کی نسلیں تباہ و برباد ہو جائیں گی۔ پچھلے دور میں جس طرح امیر آرم پسند عیاش مراعات یافتہ زندگی کی بازی ہارتے چلے گئے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو چند سکوں کی خاطر اپنی۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں