امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 682

پاک بھارت جھڑپیں، اب کیا ہو؟

گزشتہ دنوں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ مبینہ طور پر پاکستان سے گئے دہشت گردوں نے کشمیر میں حملہ کر کے چالیس سے زیادہ افراد ہلاک کر دیئے۔ جواباً بھارت نے متوقع طور پر پاکستان کی حدود میں اپنے طیارے بھیج دیے، اور اعلان کردیا کہ ہم نے دہشت گردوں، بالخصوص جیش محمد کا ایک مرکزی کمپ تباہ کردیا ہے۔ حسبِ معمول پاکستان نے اس کی تردید شروع کر دی، اور پاکستان اور بھارت کے میڈیا نے اس پر ہنگامہ خیز گفتگو شروع کرد ی۔ بھارت کا سنجید ہ میڈیا اور ماہرین خود بھارت پر تنقید کرنے لگے۔ پاکستان کا میڈیا جو طرح طرح کے دباﺅ کا شکار ہے ، عسکری قوتوں اور حکومت کے حق میں بیانات جاری کرتا رہا۔ شاید کہیں کہیں کوئی آواز پاکستان کی حکمتِ عملی کے خلاف ہو بھی تو ، وہ دبی رہی۔
اس کے فوراً بعد پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھارت کے اندر اپنے طیارے بھیجے جو نہایت صبر، سکون، اور شراافت کا مظاہرہ کرتے واپس آگئے۔ واپسی میں ان کی بھارتی طیاروں سے مد بھیڑ ہوئی اور پاکستان نے دو بھارتی جہاز گرانے کا دعویٰ کیا اور ایک پائلٹ کو گرفتار کیا۔
اس پر دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی۔ عمران خان صاحب نے اسمبلی میں بھارت کو ایک دھمکی آواز پیغامِ امن بھی دیا جس میں پہلی بار ایٹمی ہتھیاروں کی طرف بھی اشارہ کیا۔ پھر جب وہ تقریر کر کے بیٹھ چکے ، تو اچانک کھڑے ہو کر بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان قابلِ تعریف اور خوش آئند تو تھا لیکن اس کا محرک کون تھا، یہ راز کبھی افشا نہ ہوگا۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ عمران خان کا اپنا فیصلہ تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ” نظریہ باجوہ “ ہے۔ اب یہ بھی ہو اہے کہ آج پاکستان نے بہت سی دہشت گرد اور ممنوعہ تنظیموں پر سختی شروع کی ہے۔ لیکن حکومت کا وضاحتی بیانیہ یہ بھی ہے کہ ہم سب کے ساتھ یکساں سلوک کر رہے ہیں، اور ہم صرف جیشِ محمد کے خلاف تنہا کاروائی نہیں کر رہے۔ خیر جو بھی ہو، جو بھی قدم پاکستان کو امن کی طرف لے جائے وہی اس کی بقا ضمانت ہے۔ ورنہ کوئی بھی ایسی کاروائی جو جنگ کی طرف لئے جائے ، وہ خود کشی اور باہمی تباہی پر ہی منتج ہوگی۔
وہ سارے پاکستانی جو قوم پرستی، قومی برتری اور سوشل میڈیا پر پر شور پروپگنڈے کے نتیجہ میں سینہ پھلا کر دشمن کو نیچا دکھانے کا غ±ل مچارہے ہیں انہیں چند باتیں یاد رکھنا چاہیئں:
اول، یہ کہ پاکستان ایک نہایت غریب اور مفلوک ملک ہے۔ اس کا بال بال قرض میں جکڑا ہے۔ اسے آج بھی امریکہ، سعودی عرب، چین، اور دیگر عرب ممالک سے مالی امداد کی بھیک مانگنا پڑ رہی ہے۔ یہ ممالک ایسی کوئی مدد نہیں کریں گے ، جسے جنگ میں استعمال کرنے کا احتمال ہو۔
دوئم، یہ کہ دنیا کے سیاسی سفارتی نظام میں کوئی ملک آپ کا مکمل دوست نہیں ہے۔ چین جو خود بقول چینیوں کے دہشت گردی کا شکار ہے، کبھی بھی اس صورت میں آپ کی مدد نہیں کرے گا کہ جب خود آپ پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام ہے۔ اسی طرح، چین، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی اپنی مصلحتیں اور ترجیہات ہیں۔ وہ آپ کا دو ٹوک ساتھ نہیں دے گے، بلکہ خود بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں مصلحتی تواز ن قائم رکھیں گے۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ سعودی ولی عہد پاکستان میں اپنے دھوم دھام سے استقبال کے فوراً بعد بھارت سے معاہدے کرنے چلے گئے۔ اور تو اور اسلامی ملکوں کی کانفرنس نے عین ان جھڑپوں کے وقت اپنے اہم اجلاس میں بھارت کو خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کر لیا۔ پاکستان نے نا عاقبت اندیشی میں اس اجلاس کا بایئکاٹ کر دیا۔ خود چین اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات بڑہارہے ہیں۔ اور چین نے اس جھڑپ کے موقع پر واضح طور پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ جغرافیائی طور پاکستا ن کی اس وقت افغانستان، ایران، اور بھارت سے کشیدگی ہے۔ سو پاکستان واقعی تنہا کھڑا ہے۔
سوئم ، یہ کہ پاکستان کو اس وقت دہشت گردوں کی مالی مدد کی روک تھا م میں ناکارہ پاکر اس وقت اسے ایک تقریباً نیم سیاہ فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔ اور پاکستان کو نوٹس ملا ہوا ہے کہ اگر اس نے چند ماہ میں مناسب کاروائی نہیں کی تو اسے سیاہ رو کر دیا جائے گا۔ جس کے نتیجہ میں خوفناک مالی اور معاشی مسائل پیدا ہوں گے۔
چہارم، یہ کہ جنگ ایک مہنگا کھیل ہے۔ ایک معمولی سی کاروائی پر کروڑوں ڈالر ل±ٹ جاتے ہیں۔ آپ کے پاس تیل خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔ طیاروں ، ٹنکوں،توپوں، اور بکتر بند گاڑیوں کی کاروائی میں لاکھوں گیلن تیل لگتا ہے۔ آپ اس کا خرچ کیسے اٹھایئں گے۔
لے دے کہ آپ کے پاس ایٹم بم رہ جاتے ہیں۔ ایٹم بم استعمال کرنا کوئی عام بات نہیں ہے۔ یاد رہے کہ جب جاپان پر بم گرایا گیا تو وہ امریکہ، اور مغربی ممالک سے ہزارہا میل دور ایک جزائر پر مشتمل ملک تھا۔ اس حملے میں لاکھوں انسان ہلاک ہوئے تھے اور سینکڑوں میل تک تباہی ہوئی تھی۔ آپ کی تو سرحد بھارت سے ملحق ہے۔ آپ نے اور بھارت نے ایک دوسرے پر ایک بم بھی ڈال دیا تو کروڑوں انسان اور ہزاروں میل کا علاقہ فنا ہو جائے گا۔ یہ خود کشی نہیں تو کیا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ اخر ہم صرف پاکستان کو آئینہ کیوں دکھارہے ہیں،۔سو حقیقت یہ ہے کہ خود بھارت کا سیاست دان،سنجیدہ میڈیا اور فوجی ماہرین اس کو سمجھار ہے ہیں۔ اپنے وطن کے امن کا خیال کرنا ہمارا کام ہے ، اور بھارت والوں کا اپنا کا م کہ و ہ اپنی فکر کریں۔
ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم دہشت گردوں کی سرپرستی بند کریں۔ بھارت اور دیگر پڑوسیوں سے دوستی کریں، چاہے اس میں کتنی ہی انا قربان کیوں نہ ہو۔ پاکستان اور اس کے عوام کی فلاح کے لیئے یہی اہم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں