امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 648

پھر نقارہ بجتا ہے

پلوامہ میں دہشت گردی کے نتیجہ میں چالیس سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان بلند آواز لفظی جنگ چل پڑی ہے۔ اس میں دونوں طرف کے میڈیا بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا بھی، اور سر کاری اور فوجِی اہل کار بھی۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں انگریزی زبان میں Troll یا Trojan بھی کہا جاتا ہے۔ جنہیں آپ جاسوس بھی کہہ سکتے ہیں اور سوشل میڈیا کے گھ±س بیٹھیے بھی۔ وہ اس لیئے کے اکثر ان کی شناخت اصلی نہیں ہوتی۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر دشنام طرازی بھی کر رہا ہے۔ امن کی بات کرنے والے، صلح صفائی کی ترغیب دینے والے یا تو عنقا ہیں، یا اگر ہیں بھی تو ان کی آواز کبھی جبراً، یا کبھی کان پھاڑنے والے جنگی نقاروں میں دبائی دی جاتی ہے۔
جو کچھ بھی ہورہاہے اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ بھارت کسی بھی وقت کوئی خطرناک کاروائی کر سکتا تھا۔ چاہے یہ قومی انا کے نتیجہ میں ہو یا وزیرِ اعظم کے اپنے انتخابی مفاد کے حصول کے لیے۔ سو آج یہ خبر آگئی کہ بھارت نے کشمیر کی سرحد سے بھی آگے بالا کوٹ کے علاقہ میں ایک فضائی حملہ کر دیا۔ جس کی صداقت پر بھارت اصرار کرتا رہے گا، اور پاکستان اس کی تردید۔ لیکن ہوا کچھ ضرور ہے۔ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ خوش آئند نہیں ہے۔ پاکستان اس کے جواب میں کوئی کاروائی ضرور کرے گا۔ اور یوں سالہا سال کے بعد ان ملکوں کے درمیان ایک اور جنگ چھڑ جائے گی۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، حقیقت یہ ہے کہ کم از کم پاکستان ایک جنگ میں اپنا آدھا ملک گنوا چکا ہے۔
پاکستانی اس جنگ کا اور ایسی ہی دیگر جنگوں کے متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کے مبینہ حلیف بھی اس کا ساتھ دیں۔اس کا اندازہ اس سے لگایئں کہ سعودی ولی عہد پاکستان کا ایک مختصر دورہ کر کے بھارت گئے ، جہاں انہوں نے بھارت کے ساتھ کہیں بڑے تجارتی اور سفارتی معاہدے بھی کر لیئے۔ان کے جانے کے بعد بھارت نے ایک حملہ کا اعلان کر دیا۔ اور اس کے فوراً ہی بعد ابو ظہبی نے بھارت کو اسلامی ملکوں کی کانفرنس میں ایک اہم معزز مہمان کے طور پر مدعو کر لیا۔ اب پاکستانی چِلاّ رہے ہیں اور ابوظہبی کو بھی کوس رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان تو کیا خود بھارت بھی بلکہ کوئی بھی ترقی پذیر ملک کسی بھی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس بار دونوں ملک ایٹمی ہتھیار وں سے لیس ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ دنیا دونوں ملکوں پر تحمل کا دباﺅ ڈالے گی۔ لیکن اس بات کا ایک بعید امکان تو ہے کہ کوئی بھی سرپھر ا، اپنے طور پور کوئی ایسی کاروائی کر سکتا ہے جس کے نتیجہ میں کوئی ایٹمی طمنچہ چل جائے۔ ایٹمی ہتھیار چھوٹا یا بڑا ہو اس کا نقصان بھیانک شدید ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے مختلف ادوار میں غیر سرکاری عناصر یا دہشت پرستوں کے سر پرستی کے لیئے پاکستان ایک زمانے سے الزامات کا شکار ہے۔ اسے اقوام عالم کی سیاہ فہرستوں میں شامل کیا جارہا ہے جس کی وجہہ سے پاکستانیوں پر سخت مالی اور اخلاقی دباﺅ ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کی معیشت سخت بدحالی کا شکار ہے۔ نئے حکمراں ہر الزام سابق حکمرانوں پر رکھ رہے ہیں۔ بہتری کے کام کوئی نہیں کر رہا۔ اس وقت پاکستان کو صرف سود کی ادایئگیوں کے لیئے در بدر بھیک مانگنا پڑ رہی اور عزتِ نفس بھی قربان کر پڑ رہی ہے۔
ایسی صورت میں کسی بھی قسم کی چھوٹی یا بڑی جنگ نہ صرف پاکستا نی عوام بلکہ بھارتی عوام کو بھی بدحال کر سکتی ہے۔ سو دونوںہی ملکوںپر لازم ہے کہ وہ جنگ سے ہر صورت میں پرہیز کریں۔ اور کوئی ایسی ترکیب کریں جس میں دونوں جانب کے شدت پسندوں کو اپنی آواز دباناپڑے اور اصل شکست ان کی ہو۔ اقوامِ عالم کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیامیں ایک دوسرے کے دشمن ترین ممالک نے بھی جنگ چھوڑ کر امن اختیار کیا ہے اور آج ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان میں امن کے خواہاں عوام اور امن پسندو ںکی ایک بڑی لیکن خاموش آواز موجود ہے۔ ہمیں طبلِ جنگ یا نقارے پیٹنے کے بجائے ان تنہا آوازوں میں آواز ملا کر امن کے گیت بلند کرنا ہو ں گے۔
ورنہ ایک بڑے شاعر نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ:
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہایئاں بھی جل جایئں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھایئاں بھی جل جایئں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں