دوست ۔ متاع خاص 396

کارونا وائرس جیسے لوگ

جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کو تسلیم کرنا گلے میں پڑی ہڈی کی طرح جب ہٹلر جیسے انسان کو محسوس ہوئی تو اس نے تمام جرمن قوم کو ایک نعرہ دیا ”پہلے ذہنو کو فتح کرنا سیکھو“ جسمانی فتح پھر مشکل امر محسوس نہیں ہوتی۔
ہٹلر کا یہی نظریہ آگےچل کر استعاریت یا امپریلزم کو پروان چڑھانے میں ممدو و معاون ثابت ہوا اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہندوستان میں راج بھی دوسروں کو ذہنی، معاشی، سیاسی، مذہبی غلامیت کا طوق پہنچانے کا سبب بنا۔ موجودہ دور میں ہر ملک کی یہ پالیسی کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ کسی طرح ترقی پذیر ممالک کو اقتصادی طور پر کمزور کیا جائے ایک زمانہ وہ تھا جب سوشل میڈیا جھولے میں پڑے بچے کی طرح شعور اور آگہی سے ناواقات تھا پھر عوام کا ذہن بچپن سے نکل کر جوانی کی حدود میں جب داخل ہوا تب ساری دنیا کے حالات کی دھوپ روشنی ذہنوں کے آنگن میں اتر آئی۔ حالات حاضرہ پر بحث مباحثہ کرنے کا حق سب کومل گیا۔ علم اور سوچ بچار کے وارث پیدا ہو گئے اور جہالت کا وائرس ختم ہو گیا۔ آج دنیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں چھوٹے سے گھر میں کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو پھر اس کا تذکرہ ہر خاص و عام میں یکساں مقبولیت حاصل کر لیتا ہے۔ بہرکیف سارس، کرونا وائرس تو ایک مخصوص جگہ سے جراثیم کی شکل میں اٹھے اور ساری دنیا میں پھیل گئے لیکن وہ لوگ کہاں پائے جاتے ہیں جو اس قسم کے خطرناک وائرس سے بھی زیادہ جان لیوا ہیں ایسے لوگ ہمارے آپ کے ارد گرد ہر لمحہ منڈلاتے پھرتے رہتے ہیں۔ ڈرگ مافیا کی شکل میں صرف ظاہری شکل میں دکھائی نہیں دیتے۔ کیونکہ ان کا وجود شہد کی مکھی کے مترادف ہے جو منہ میں شہد لیکن اپنی دم میں ڈنک کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انسان ہر جگہ پر روز ایسے وائرس پھیلانے والے لوگوں کے بیچ اس طرح چلتا ہے گویا غبارے کے جوتے پہن کر کانٹوں کے فرش پر چل رہا ہو۔ وہ کتنے قدم طے کر پائے یا راستے میں ہی گیر جائے گا ہم آپ کو کوئی اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ بیماری کا وائرس تو بتا کر آتا ہے اس کی کوئی علامت ہوتی ہے اورپھر اس کا حفظ ماتقدم بچاﺅ بھی ممکن ہے لیکن ان جراثیم زدہ لوگوں کا کیا جو خود بھی ذہنی بیماریوں کے وینٹی لیٹر پر پڑے زندگی سے دور ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی چھوت کی بیماری کی طرح متاثر کرکے چھوڑتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ جھوٹی انا، خودغرضی اور حسد و بغض کی عینک اتار کر دل بینا اور روشن احساسات کی آنکھ سے دوسروں کو دیکھنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں کی شکل میں ہوں یا اپنے خونی رشٹوں کی شکل میں، دوستوں کے روپ میں ہوں یا عارضی ملاقاتیوں کی طرح ہوں، الفاظ کے نشتر سے دوسروں کو زخمی کرنا، طنز آمیز جملے کہنا، کسی کا معاشی معاشرتی حالت کو موضوع بہث بنا کر زہنوں پر نفرت اور تعصب کے ہتھوڑے برسانا اپنا ذاتی حق سمجھتے ہیں۔ گلی محلہ اسکول دفتر گھر کے اندر باہر شاپنگ سینٹر ہسپتال ہر جگہ ہر وقت دوسروں کو الفاظ کی شکل میں( Slow Poisning) سلو پوائزنگ کرنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے سنتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ ذہنی بیمار افراد گردانے جاتے ہیں یہ خواہ کسی ملک کے ہوں کسی ایک قوم کے یا کسی ایک طبقے کے ہوں۔
ان میں بیشتر وہ لوگ ہیں جو Stereo Typed ہیں یعنی جن کے ذہنوں میں نسلی، لسانی و مذہبی طبقاتی فرق نے پکا ڈیرہ جما لیا ہے ہر شخص کو اپنے اسی “Frame of Reference” میں دیکھنا ان کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے لائف اسٹائل میں تغیر پسندی گناہ کبیرہ سمجھا گیا ہے۔ ایسے افراد جو خود ذہنی کش مکش، احساس کمتری کی کمزور ہچکولے کھاتی کشتی کے سوار ہوں وہ دوسروں کو خاک راہ مستقیم دے سکیں گے۔ اسی لئے آگہی اور شعور کی عینک پہن کر غرور اور جھوٹی انا رکھنے والوں کا جائزہ لینا ہر ایک کا حق ہے کسی دوسرے کی نفسیاتی بیماری کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ اپنے ذہنوں کو ہم خود فتح کرنا سیکھیں۔ ہمارا رب جو عظیم و خبیر ہے، ہماری کتاب جو پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے ہمارا رسول جو بہترین اخلاق کا نمونہ ہیں، کیا کفی نہیں، ہمارے ذہنوں کو فتح کرنے کے لئے اور پھر ان کی فتح میں ہمارے لئے سرور ہے، نشہ ہے۔
کرونا وائرس جیسی کئی آفات زندگی میں خدانخواستہ آئیں گی پھر زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والی ہستی پر یقین کامل مضبوط کرکے واپس ملک عدم سدھار جائیں گی لیکن اپنے پیچھے اثرات کی ایک طویل فہرست چھوڑ جائیں گی۔ حفاظتی تدابیر کا ایک دروازہ کھول کے آگے گزر جائیں گی۔ یہ حفاظتی تدابیر صرف وائرس کے لئے مخصوص نہیں بلکہ انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام حادثات کے لئے ایک لائحہ عمل ہیں۔ وہ حادثات اتفاقیہ ہوں کسی ایک گھر کی تباہی سے منسلک ہوں یا آئندہ نسلوں کی بربادی سے متعلق ہوں۔ ایسے افراد سے ان کے ناپاک عزائم سے، مذموم ارادوں سے باخبر رہنا ہمارا آپ کا حق ہے اور ہم وارث ہیں اپنی بصیرت، عقل، سوجھ بوجھ کے جو ہمارے رب نے ہمیں عطا کی ہے۔ اس لئے دنیاوی وائرس یقین کامل اور مضبوط ایمان کے سامنے کوئی معافی نہیں رکھتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں