۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 288

کراچی مقبوضہ۔1

یہ قصہ ہے ایک شہر کا، ایک معاشرے کا، ایک تہذیب کا اور ایک اس ماحول کا جسے نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ ایک روشن جگمگاتا شہر جہاں ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی، جہاں ہر گوشہ روسن اور تابندہ تھا۔ یہ کہانی ہے اس معاشرے کی جہاں شائستگی، تہذیب اور ادب آداب تھے، لوگ پڑھے لکھے شائستہ اور ادبی محافل کی جان ہوا کرتے تھے جہاں علم و دانش کا چرچا تھا جس کی مثالیں سارے ملک میں دی جاتی تھیں۔ جہاں کے لوگوں کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسی تہذیب تھی جہاں انسان کو اس کے کردار کے ذریعہ پہچانا جاتا تھا جہاں ابھی بھی شائستگی اور نفاست لوگوں کو پرکھنے کا پیمانہ تھی۔ یہ ایسا ماحول تھا کہ باہر سے آنے والا خود کو اس میں سمانے کے لئے انہی جیسا بننے کی جدوجہد کرتا تھا اور اس بات کی تمنا کہ کاش وہ بھی ان جیسا ہی بن جائے جہاں تعلیم کا معیار اعلیٰ ترین تھا جس ی مثالیں ملک بھر میں دی جاتی تھیں۔ یہ شہر جو تین ساڑھے تین لاکھ آبادی والا تھا جب پاکستان بنا تو اس ملک کا صدر مقام ٹھہرا۔ مچھیروں کے اس شہر میں ہندوستان بھر کے متمدن شہروں میں بسنے والے لوگ ہجرت کرکے یہاں جنہیں قانونی طور پر یہ حق دیا گیا تھا کہ جو املاک اور جائیدادیں یہاں سے منتقل ہونے والے ہندوﺅں نے چھوڑی ہیں وہ انہیں ان کی جائیدادوں کے عیوض تفویض کی جائیں گی یہ کاروباری پڑھے لکھے اعلیٰ تہذیب کے مالک اور ایک انتہائی تہذیب یافتہ ماحول کے پروردہ جب آئے تو انہوں نے اس نوزائیدہ ملک کو اپنا وطن تصور کرتے ہوئے اپنی دولت، محنت اور لگن سے اس کی ترقی میں اپنا کردار مذہبی فریضہ کی طرح سمجھ کر ادا کیا اور شہر کو جو کہ ایک چھوٹا شہر تھا اسے عروس البلاد بنانے کا تہیہ کرلیا اور اسے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے شہروں کے ساتھ لا کر کھڑا کردیا۔ یہ شہر جو ایک میٹروپولیٹن شہر تھا اب اقوام عالم میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔ اس کی اس ترقی میں ان پرخلوص افراد کا کردار تھا جو گو کہ اقتدار میں تھے مگر خود کو اس ملک کا ادنیٰ خادم تصور کرتے تھے اور اپنی ذات کی نفی کرکے سب کچھ اس ملک کو ایک مثالی خطہ بنانے کے لئے سرگرم تھے مگر آہستہ آہستہ یہ مخلص لوگ اس جہاں سے کوچ کرتے گئے اور پھر طالع آزماﺅں نے اس ہری بھری کھیتی پر اپنے منحوس سائے ڈالنے شروع کر دیئے۔
صدر ایوب کے دور تک جس پر لوگ ایک آمر ہونے کا الزام لگاتے ہیں اس کے دور تک کراچی میں بے مثال ترقی ہوئی اور یہ شہر عالم میں انتخاب ہو گیا اس کے بعد سے ایک مہیب سایہ اس ملک پر پڑنا شروع ہوا جسے سارے پاکستان کے ساتھ ساتھ کراچی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ نام نہاد عوامی لیڈر جس نے صدر ایوب کو اپنے باپ کا درجہ دیا ہوا تھا اور اسے ”ڈیڈی“ کہتا تھا نے اپنی ریشہ دوانیوں سے اپنے ”باپ“ سے غداری کرتے ہوئے اس کے خلاف مہم چلائی اور روٹی، کپڑا اور مکان کے دلفریب نعروں سے غریب عوام کو سبز باغ دکھا کر اور اپنی ساری مکاریوں اور سازشوں سے ملک کو دو ٹکڑے کرکے مغربی پاکستان پر اپنا اقتدار قائم کرلیا جس کے بعد اس نے خود کو پہلا سول ڈکٹیٹر کا تاج پہنا کر کراچی جو کہ کبھی بھی سندھ کا حصہ نہیں تھا سے عوام کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ وہ شہر جو تعلیم کے معاملے میں پورے ملک میں ممتاز مقام رکھتا تھا اور جہاں سے انتہائی قابل شخصیتیں اہم عہدوں پر فائز ہو کر پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہی تھیں کو ایک جابرانہ حکم کے ذریعہ بیک جنبش قلم انہیں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا اس طرح سینکڑوں کی تعداد میں اردو بولنے والے بیوروکریٹ کو برطرف کردیا اس کے بعد اس نے دوسرا وار کرکے تعلیم کو سرکاری تحویل میں لے لیا جس کا جواز اس کے وزیر تعلیم پیرزادہ عبدالحفیظ نے سکھر کے لاءکالج میں راقم الحروف کے ایک سوال میں کہ تعلیم کو قومی تحویل میں لینے کا مقصد کیا ہے؟ کے جواب میں کہا کہ ملک میں 90 فیصد تعلیمی معیار سو کے مقابلے میں 10 یا 20 فیصد ہے جب کہ 10 فیصد کا معیار 80 یا 90 فیصد ہے اس نئی پالیسی کے تحت ہم 90 فیصد کو بلند کر نہیں سکتے اس لئے اب انہیں بھی نیچے لا کر سب کے برابر کردیا جائے گا یعنی کہ تعلیمی معیار بلند کرنے کے بجائے جو بلند ہے اسے بھی نیچے لا کر سب کے برابر کردیا جائے گا اس طرح کراچی جو تعلیم میں سارے ملک میں بلند ترین معیار کا حامل تھا اسے ختم کردیا گیا۔ دوسرا وار یہ کیا گیا کہ صنعتں کو سرکاری تحویل میں لے کر جو سب سے زیادہ کراچی میں تھیں ان میں نا اہل سندھیوں کو بھر دیا گیا اس طرح پی آئی اے، سدرن گیس، اسٹیل مل، ریلوے اور دوسرے سرکاری محکوں میں سندھیوں کو اعلیٰ عہدے دے کر ان اداروں کو تباہ و برباد کردیا گیا جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔ اس متعصب وزیر اعظم نے سب سے برا ظلم سندھ میں شہری اور دیہی آبادی میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے کیا جس کے تحت کراچی، حیدرآباد اور سکھر کو شہری علاقے قرار دے کر اور کہہ کر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں چونکہ تعلیم یافتہ اور زیادہ قابل آبادی رہتی ہے اس نے تمام داخلے یا ملازمتیں کراچی یا سندھ کی شہری آبادی میں بٹ جاتی ہیں اور سندھ کے دیگر علاقوں کے لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس طرح بھٹو کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے تحت اہل کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے شہری علاقوں کو میرٹ کے بجائے اور قابلیت کو نظر انداز کرکے ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں میں حصہ ملتا ہے اور قابلیت کی جگہ رہائشی علاقے کو فوقیتدی جاتی ہے۔ یہ کوٹہ سسٹم جو دس سال کے لئے تھا آج 40 سال سے زائد ہونے کے باوجود سندھ کے شہری علاقوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہری علاقوں کا 90 فیصد نمبر لے کر کامیاب ہونے والا لڑکا داخلہ سے محروم ہے اور دیہی علاقے کا 40 فیصد نمبر لے کر پاس ہونے والا کالج میں بیٹھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اور انینئر بن رہا ہے جہاں اسے کامیاب کرانے کے لئے نقل اور سفارش کی سہولتیں حاصل ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسپتالوں میں لوگوں کو مار رہے ہیں اور عمارتوں اور پلوں کو بنا کر انہیں منہدم کرارہے ہیں اس کے ساتھ ساھ سندھیوں میں ایک جملہ عام ہے کہ ایک غیر سندھی کو نوکری دینا ایک سندھی کا قتل ہے، یہ سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ ایک سندھی وزیر اعلیٰ نے خود مجھ سے یہ بات کہی تھی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں احساس محرومی تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے جہاں لوگوں کو روزگار نہیں ملتے، بچوں کو کالجوں میں داخلے نہیں ملتے اور اگر وہ تعلیم حاصل کر بھی لیں تو انہیں ملازمتیں نہیں ملتی ہیں۔ شہری آبادی کے بڑے حصے کا خیال ہے کہ کوٹہ سسٹم جیسی نا انصافی اس لئے بھی ہوتی ہے کہ سندھ کی اردو بولنے والی آبادی کو سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں