نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 479

کون عمران خان کون۔۔۔؟

روایتی طریقوں سے عمران خان کو شکست دینا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔ یہ میں بہت بڑی بات کہہ رہا ہوں لیکن جو میں محسوس کررہا ہوں اسی کی روشنی میں لکھ رہا ہوں۔ عمران خان سے لڑنے اور انہیں ہرانے کے لئے پہلے انہیں سمجھنا بہت ضروری ہے، انہیں سمجھے بغیر نہ تو ملکی اپوزیشن انہیں شکست دے سکتی ہے اور نہ ہی طاقتور میڈیا اسے جھکا سکتا ہے اور نہ ہی امریکا سمیت دوسری عالمی طاقتیں اسے اپنے اشارے پر چلا سکتی ہیں۔ عمران خان کو سمجھنے سے پہلے پاکستانی سیاسیت میں دلچسپی رکھنے والے حضرات اگر ان دو سوالوں کے جوابات جانتے ہیں تو انہیں عمران خان کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ یہ کون ہیں؟ اور یہ پاکستان کے وزیر اعظم کس طرح سے بن گئے؟
پہلا سوال یا معمہ یہ ہے کہ پاکستان جسے 1948ءمیں وجود میں آنا تھا وہ 14 اگست 1947ءکو کس طرح سے معرض وجود میں آگیا؟ اور اس کے وجود میں آنے کے ٹھیک 9 ماہ بعد یعنی 4 مئی 1948ءکو اسرائیل کس طرح سے وجود میں آگیا؟
دوسرا سوال یا معمہ پاکستان امریکہ کے سپرپاور بننے سے پہلے ہی اندرون خانہ پوری طرح سے ایٹمی پاور کس طرح سے بن گیا؟ اگر کوئی ان دونوں واقعات کے وجوہات جانتا ہے تو اس کی سمجھ میں میری یہ ساری باتیں بلا کسی شواہد، دلائل اور منطق کے آجائے گی۔ اس لئے کہ عمران خان ان ہی دونوں واقعات کی تیسری کڑی ہیں۔ اس لئے میں نے بہت ہی دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ دی ہے کہ عمران خان کو روایتی طور طریقوں سے شکست دینا دیوانے کے خواب کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ افسوس کے پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں بھی وہی روایتی طور طریقے استعمال کرکے عمران خان کو شکست دینے کی کوشش کررہی ہیں۔ اسی طرح سے پاکستانی میڈیا بھی بلیک میلنگ کا روایتی حربہ استعمال کررہا ہے اور مزے کی بات یہ کہ پاکستانی میڈیا جتنے مدوشد کے ساتھ عمران خان کی مخالفت کررہا ہے، اتنا ہی عمران خان کی مقبولیت کا گراف روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔ اب مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں یا پہیہ جام ہڑتال کریں، ان طریقوں سے عمران خان کا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ان سب لوگوں کو عمران خان کے دورئہ امریکہ پر ٹھنڈے دِل و دماغ کے ساتھ ایک بار نہیں بار بار غور کرنا چاہئے کہ یہ سب کچھ کس طرح سے ہوا کہ ٹرمپ جیسا امریکی صدر کس طرح سے عمران خان سے پہلی ہی ملاقات میں اس کا دیوانہ ہوگیا۔ اس سے قبل روسی صدر پیوٹن بھی پہلی ملاقات میں عمران خان کے گرویدہ ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے سیاستدان اور میڈیا والوں کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ ان کا واسطہ کسی عام شخص سے نہیں پڑا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے سارے کے سارے وار ہی خطا ہوتے جارہے ہیں، کوئی ایک بھی نشانے پر نہیں لگ رہا ہے، انہیں اس بات کا فہم و ادراک ہی نہیں ہے کہ عمران خان کے نیک نامی، ایمانداری، اصول پرستی اور کسی کام کو جنون کی حد تک کرنے کی عادت کی شہرت ملک سے باہر بہت زیادہ ہے۔ مغربی دُنیا کے رہنے والے اپنے اس میڈیا سے بھی زیادہ عمران خان کی بات پر یقین رکھتے ہیں جو شازو نادر ہی کوئی غلط یا جھوٹی خبر بریک کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی دورے کے دوران جب ایک بار نہیں بار بار عمران خان سے پاکستان میں پریس پر پابندی سے متعلق سوالات کئے گئے تو سوالات پوچھنے والے عمران خان کے جوابات سے لاجواب ہوگئے اور نہیں خود سے سوالات کروانے والوں پر غصہ آنے لگا تھا اس لئے کہ لوگوں کو عمران خان کی بات پر اتنا یقین ہے کہ وہ ان کے جواب کے بعد اس پر کسی طرح کا کوئی شک ہی نہیں کرتے اور اسے سچ ہی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بات جو امریکی حکومت افغانستان کے معاملے پر پچھلے تیس چالیس سالوں سے نہیں سمجھ پا رہی تھی وہ عمران خان سے ایک ہی ملاقات کے دوران ٹرمپ جیسے صدر کے ذریعے با آسانی سمجھ گئی اور اس کے بعد امریکہ کی افغانستان سے متعلق پوری خارجہ پالیسی ہی تبدیل ہوگئی۔
عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے سے سب سے زیادہ فائدہ ہی ملک کے سلامتی کے اداروں کو ہوا اس لئے کہ بھارت کے ذریعے جو دو بڑی تحریکیں پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں چل رہی تھیں وہ دم توڑ گئیں اور بلوچ لبریشن کو امریکہ کے ذریعے بلیک لسٹ قرار دیئے جانے سے بھارتی سرمایہ کاری جو اس علیحدگی پسند تنظیم پر کی گئی تھی وہ ختم ہو گئی۔ اس وجہ سے ان دونوں دہشت گرد گروپوں کے خاتمے پر ہماری سیکیورٹی فورسز کی جو اضافی توانائی خرچ ہو رہی تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پاکستان کے سیاست اور میڈیا کے ایک گروپ میں بقاءکی جنگ چڑھ گئی ہے۔ عمران خان کی وجہ سے وہ دونوں بہت ہی بری طرح سے بے نقاب ہو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں رولز آف لاءکا سامنا کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی پاکستانی عوام بالخصوص اور غیر ملکی طاقتیں بالعموم ان کا سودا خریدنے کو تیار ہیں۔ وہ اپنے اپنے روایتی انداز سے عمران خان پر حملہ آّر ہو رہے ہیں جب کہ ان کی اس بچکانہ حرکتوں سے عمران خان محظوظ ہو رہے ہیں۔
میں کالم کی ابتداءمیں ہی لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اسی سلسلے کی تیسری کڑی ہیں، جس میں پاکستان کا قیام اور پاکستان کا ایٹمی طاقت بن جانا امریکہ کے سپرپاور بننے سے پہلے ہونا ہے جس طرح سے ان دونوں سوالات کے سامنے ہمیشہ معنی خیز سوالیہ نشان رہے گا اسی طرح سے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے آغے بھی ہمیشہ ہی سوالیہ نشان رہے گا اسے چاہے آپ الیکٹڈ کہے یا سلیکٹڈ۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جس طرح سے سامری جادوگر کو مارنے کے لئے اس پرندے کو مارنا ضروری تھا جس میں اس کی جان ہوا کرتی تھی بالکل اسی طرح سے عمران خان کو روایتی طریقوں سے شکست دینا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے اس کے لئے ان وجوہات کو تلاش کرنا ہوگا جس کی وجہ سے عمران خان کا پاکستان کا وزیراعظم بننا ممکن ہوا۔ اور وجوہات جاننے کے بعد مخالفت کرنے والے بھی ان کے دیوانے بنے نہیں رہ سکیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں