امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 356

کیا امریکی جمہوری نظام کا زوال شروع ہوگیا؟

دنیا بھر کے جمہوریت پرستوں کے لیئے ، امریکی جمہوری نظام ایک مثالی نظام سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ نظام گزشتہ دو سو تیس سال سے حکمرانی کا ایسا ماڈل ہے جس کی بنیا د پر امریکہ اب تک شخصی ، گروہی، اور اکثریتی آمریتوں سے محفوظ رہا ہے۔ یہ اس قسم کی آمریتیں ہیں جو دنیا کے کسی بھی معاشی ، سماجی، شہری نظا م کو فنا کردیتی ہیں، خواہ یہ نظام کتنے ہی منصفانہ کیوں نہ ہوں، اس کی سامنے کی مثال ایک منصفانہ معاشی نظام کمیونزم کا زوال ہے۔ اسی طرح اسلام کے نام پر قائم کیئے گیا کوئی بھی نظامِ حکمرانی، انصاف کے تمام تر دعووں کے باوجود پنپ نہیں پایا۔
امریکی جمہوری نظام کی قوت امریکہ کے بانیوں کی بصارت پر مبنی امریکی آئین ہے، جس میں دو سو تیس سال میں صرف ستایئس ترامیم کی جاسکی ہیں،جن پر سب ریاستیں متفق ہیں۔ اس کا موازنہ آپ پاکستان کے آئین سے کر سکتے ہیں، جس میں صرف گزشتہ سینتالیس سال میں اب تک پچیس ترامیم کی جاسکی ہیں۔ امریکی آئین ان مضبوط اصولوں پرقائم ہے، جس میں ہر شہری ایک نظام کے تحت آزاد ہے، اسے اپنی رائے اور مذہب کے اظہار کی آزادی ہے۔ ریاستیں یا صوبے وفاق میں رہتے ہوئے اپنے فیصلے کرنے میں خود مختار ہیں۔ اور مقننہ، عدلیہ، اور انتظامیہ ، اور انتظامیہ ایک ایسے احتسابی نظام کے پابند ہیں، جس میں کوئی بھی من مانی نہیں کر سکتا۔
امریکی انتظامیہ کا سربراہ وہاں کا صدر ہوتا ہے، جسے آئین کے تحت بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن وہ ایسے کئی اختیارات کے لیئے کانگریس کے ایوانِ بالا یا سینیٹ کی منظوری حاصل کرنے کا پابند ہے۔ اس کے ساتھ اسے اختیارات میں مفروضہ تجاوز کی صورت میں ، کانگریس ،اعلیٰ عدلیہ یا سپریم کورٹ کا سامنا پڑ کر سکتا ہے اور اس کے فیصلے منسوخ کیئے جاسکتے ہیں۔
امریکی جمہوری نظام کے ارتقا کے نتیجہ میں وہاں ایک دو جماعتی نظام قائم ہو گیا، اور جو دو جماعتیں نظام میں راسخ ہو گئی ہیں۔،وہ ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک جماعتیں ہیں۔یہ جماعتیں نظام حکمرانی میں واضح نظریاتی فرق پرقائم ہیں۔ یہ فرق معاشی اور سماجی نظام کے نفاذ کاہے۔ ریپبلیکن جماعت ایک قدامت پرست دایئن بازو کی جماعت سمجھی جاتی ہے، اور ڈیموکریٹک جماعت ایک آزاد خیال بایئں بازو کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔
جہاں تک معاشی نظام کا تعلق ہے ، دونوں جماعتیں سرمایہ داری کی حمایت کرتی ہیں۔ قدامت پرست ایک سخت گیر سرمایہ داری کے حامی ہیں ، جس میں ہر شخص دولت کو ہر طریقہ سے حاصل کرنے، اور صرف انفرادی مفادات قائم کرنے کا حامی ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ڈیموریٹک جماعت ایک نرم خو سرمایہ داری کی حامی ہے، جس میں ملک کی دولت میں سب ایک حد تک شریک ہو سکتے ہیں، اور ریاست عوام کی بہبود میں کردار ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
امریکی نظام کے تحت کوئی بھی دو بار سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا۔ یوں وفقہ وقفہ سے آٹھ سال کے بعد نیا صدر آسکتاہے۔ ہاں ایک جماعت آٹھ سال سے زیادہ مسلسل حکومت کر سکتی ہے۔ لیکن ایسا وہاں صرف سات بار ہو پایا ہے۔
گزشتہ چالیس پچاس سال میں دنیا بھر میں قدامت پرستی میں اضافہ کے نتیجہ میں امریکہ میں دایئں اور بایئں زو کا اختلاف بڑھتا گیا ہے۔ اور اکثر فیصلے جوبارہا جماعتی باہمی تعاون سے کرتی تھی اب یک طرف ہوتے جارہے ہیں۔ باہمی فیصلوں کی بنیاد کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ہم آہنگی ہوتی تھی، باوجود اس کے کہ ان میں سے کسی بھی ایک ایوان میں مخالف جماعت کی اکثریت ہو سکتی تھی۔ لیکن اب ہر جماعت اس تعاون میں سخت گیر ہوگئی ہے۔
اب سے دو سال پہلے موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد امریکی شہریوں میں نظریاتی اختلاف سنگین حد تک گہر ا ہو گیا۔ وہ شدید مذہبی ، سماجی ، اور معاشی قدامت پرست کی بنیاد پر منتخب ہوئے اور انہوں نے معاشرے میں تفریق کو دانستہ ہوا دی۔
انہوں نے کئی من مانے فیصلے کیئے۔ اب سے پہلے ایسے من مانے فیصلوں پر سخت احتساب ہو سکتا تھا۔ یہ احتساب کانگریس کے ایوانِ زیریں میں شروع ہو تا ہے جس میں صدر کو احتساب سے تجاوز کا ملزم قرار دیا سکتا ہے، اور پھر اس پر ایوانِ بالا میں مقدمہ چلا کر اقتدار سے ہٹایا جا سکتاہے۔ اس ممکنہ احتساب کی دہشت ایسی ہے کہ ابتک صرف تین صدور پر یہ الزام لگا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ہٹایا نہیں گیا کیونکہ اس کے لیئے ایوانِ بالا کی دو تہائی اکثریت لازم ہے۔ یہ اکثریت صدر نکسن کے خلاف موجو د تھی، لیکن انہوں نے خود استعفیٰ دے دیا۔ موجود صدر ٹرمپ وہ تیسر ے صدر ہیں جن پراختیارات سے تجاوز پر احتسابی الزام لگا ہے۔ لیکن تمام تر شہادتوں کے باوجود ان کی جماعت نے ایوانِ بالا میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر مقدمہ میں نئی شہادتیں داخل نہیں کرنے دیں، انکے ایک وکیل نے اچھوتا اصول پیش کردیا کہ کوئی بھی صدر اگر وہ سمجھے کہ اس کے نزدیک اس کا دوبارہ انتخاب قومی مفاد میں ہے تو وہ جو من مانی چاہے ،کر سکتا ہے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر یہ غیر اصولی، نا منصفانہ صدارتی من مانی راسخ ہو گئی تو امریکی جموری نظا م ڈھے جائے گا۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں