امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 763

گل افشانیگفتار۔۔مزاح، طنز، یا ہجو

ضامن جعفری صاحب نے ”گ±ل افشانیءگفتار“ کے پیش لفظ میں نقدِ ادب کی ضمن میں یہ کہتے ہوئے اک آتشیں یوار یا Firewall کھڑی کر دی ہے کہ”رہا یہ امر کہ کہیں نون گر رہا ہے یادال دب رہی ہے تو میری طرف سے ناقدین کو پوری پوری اجازت ہے کہ جہاں جہاں جو جو چیزیں بھی گری ملیں ا±ن کو اٹھا لیں، اورد بی ملیں تو ا±ن کو ابھار دیں۔“ لیکن ادب کے ہر طالب علم کو آگ کے ہر دریا میں ڈوب کے جانا ہوتا ہے۔ گری دبی چیز کا ذکر پڑھ کر مجھے ’ ’ریختہ “ کی یاد آتی ہے۔ وزیر آغا نے اپنی تصنیف” اردو شاعری کا مزاج “میں ریختہ پر سیر حاصل تبصر ہ کا آغاز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ، ”ریختہ کے لغوی معنی گرے پڑے اور پریشان کے ہیں“۔ یہ وہی ریختہ یاپڑی دبی چیز ہے جس کو ا±ٹھاتے اور بلند تر کرتے ہوئے، قائم چاندپوری نے کہا تھاکہ ” قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ۔ اک چیز لچر سی بزبانِ دکنی تھی“۔ اور پھر غالب نے کہا کہ، ”ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب۔کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا“۔ اور پھر ایک بڑے شاعر نے طنزاً یہ کہا کہ، ” نہ ہو ا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب۔ ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا۔“یہ حوالے بیان کرنے کا مقصد صرف اتناہے کہ یہ نقاد کے ذوق، یا تنقید کے طالب علم کی استعدادِ علمی پر منحصر ہے کہ وہ میر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کس چیز کو کتنا ارفع و اعلیٰ کر دیتا ہے۔ نقد و تنقید کی بات کرتے ہوئے یہ بھی مناسب ہوگا کہ علمِ تنقید کی حالتِ زار کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دنیا ئے ادب کے اہم ترین نقادوں میں شامل نورتھروپ فرائی کی شہرہ آفاق کتاب، Anatomy of Criticism سے کچھ استفادہ کریں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ عصرِ حاضر میں اردو کے تقریباً سب ہی اہم نقادوں نے اس کی فکر سے استفادہ کیا ہے لیکن اس کا باضاطہ اعتراف صرف ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کیا ہے۔ ادبی تنقید کی یہ اہم ترین کتاب Mennipean Satire یا منیبیائی ہجو کے اصول پر مرتب کی گئی جس کے لیئے فرائی نے Anatomy کی اصطلاح تجویز کی۔ فرائی لکھتا ہے، ”خالص تنقید مرتب کرنے کے لیئے پہلا اور اہم قدم یہ ہے کہ ہم بے معنی تنقید کو پہچاننے اور اس سے چھٹکار احاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اور ادب کے بارے میں اس طریق پر بات کرنا چھوڑ دیں جو ہمیں ایک منظم علمی ساخت مرتب کرنے میں مدد گار نہ ہو۔ اس ضمن میں وہ بلند آہنگ بکواس بھی شامل ہے جو ہم تنقیدی عمومیت، مفکرانہ تبصروں، نظریاتی خلاصہءکلام، اور ان سب نتائج میں پاتے ہیں جو کسی بھی غیر منظم موضوع کے طائرانہ جائزہ پر مبنی ہوں۔اس میں وہ سب فہرستیں بھی شامل ہیں، جو ”بہترین“ نالوں، نظموں، اور مصنفین پر مشتمل ہوں، چاہے ان کی خاص صفت شمولیت یا اختصاص ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں وہ تمام اتفاقی، جذباتی، اور متعصبانہ قدری فیصلے بھی شامل ہیں، اور وہ ساری ادبی گپ شپ بھی جوکسی تخیلاتی بازارِ حصص میں شاعروں کی ساکھ گو گراتی اورچڑھاتی ہے۔ وہی مالدار سرمایہ کار، مسٹر ایلیٹ (Mr. Elliot) جس نے ملٹن (Milton) کے حصص بازر میں پٹخ دیئے تھے، اب انہیں پھر سے خرید رہا ہے؛ ڈون (Donne)کا اپنی قدر کی اونچائی پر پہنچنے کے بعد پھر سے زوال شروع ہو گیا ہے؛ ٹینی سن (Tennyson)نے پھر سے پھڑ پھڑانا شروع کردیا ہے، لیکن شیلی (Shelley) کے حصص اب بھی مندی کا شکار ہیں۔ اس طرح کی کوئی بھی چیز کسی بھی منظم مطالعہ کا حصہ نہیں ہو سکتی، کیونکہ صرف منظم مطالعہ ہی ترقی پر منتج ہوتا ہے:جو کچھ بھی تذبذب، پس و پیش، اور ردِ عمل پر مبنی ہووہ ایک کاہل الوجود طبقہ کی گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔“
ان سطور میں فرائی نے جن تنقیدی مسائل کا ذکر کیا ہے وہ کائناتی بھی ہیں اور ان کا اردو تنقید پر بھی پوری طرح اطلاق ہوتا ہے۔ ہمارے اپنے نقاد اور تنقید جس فکری انتشار کا شکار ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم آج تک اردو تنقید میں نہ تومتفقہ جامع اصول طے کرسکے ہیں نہ ہی ان معیارات کی منظم ترتیب کر سکے ہیں ہو جو ہمیں کسی بھی ادب پارے یا ادبی تخلیق کار کے بارے میں فکری مطالعہ میں مدد دے سکیں۔
اردو ادب کی بنیادی مشکل شاید یہ بھی رہی ہے کہ ہم مولانا حالی کے مقدمہءشعر و شاعری کو اردو تنقید کی بنیادی کتاب مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اردو زبان میں ارسطو کی “Poetics” کے درجہ کی یا اس کے مقابلے کی کتاب ہے۔ اردو کی اصنافِ سخن کے بارے میں لکھتے وقت مولانا حالی لکھتے ہیں کہ ”پانچویں اصنافِ سخن میں سے تین ضروری صنفیںجس کا ہماری شاعری میں زیادہ رواج ہے یعنی غزل، قصیدہ، اور مثنوی ، ا±ن کے متعلق چند مشورے دیئے جاتے ہیں۔“مولانا یہ نہیں بتاتے کہ وہ پانچ اصنافِ سخن کیا ہیں جن میں سے انہوں نے تین کو چن لیا۔ پھر وہ بقول ان کے کسی خاص مناسبت کے حوالے سے رباعی اور قطعہ کو غزل کی ذیل میں داخل کر دیتے ہیں۔ قصیدہ کی مد میں لکھتے لکھتے کہ یہ مدح کا کلام ہوتا ہے، مولانا ایک زقند لگاتے ہیں اور مرثیہ کی تعریف سمجھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ”مرثیہ پر بھی اس لحاظ سے کہ اس میں زیادہ تر شخصِ متوفی کے محامد و فضائل بیان ہوتے ہیں، مدح کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ زندوں کی تعریف کو قصیدہ بولتے ہیں اور مردوں کی تعریف کو جس میں تاسف اور افسوس بھی شامل ہوتا ہے مرثیہ کہتے ہیں“۔ پھر ذرا آگے بڑھ کر شاید اسی نظریاتی تعصب کے تحت جس سے پرہیز کا فرائی نے مشورہ دیا تھا، وہ اپنی اہم تصنیف میں یہ جملہ شامل کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ، ”شعرا کے جرگے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو اور بگڑا گویا مرثیہ خواں“۔ اب اگر خامہ انگشت بندنداں نہ ہو تو کیاہو۔شاید یہی وجہہ تھی کہ ایک اور معروف نقاد کلیم الدین احمد کو لکھنا پڑا کہ، ” یہ خیال کہ مقدمہءشعر و شاعری اردو میں بہترین تنقیدی کارنامہ ہے نہایت حوصلہ شکن ہے“۔ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادبی تنقید کی دیوار اس لیے ٹیڑھی رہ گئی کہ، خشتِ اول چوں نہد معمار کج “۔
اس میںشاید کسی کو کوئی اختلاف نہ ہو کہ اردو شاعری اور اردو ادب کی روایت عربی اور فارسی شاعری کی روایت سے پیوست و وابسطہ ہے۔ اگرمولانا نے ان ہی مغربی اثرات کے تحت مقدمہ ءشعر و شاعری کو ترتیب دیا ہوتا جن کا وہ مقدمہ میں بار بار ذکر کرتے ہیں تو پھر وہ ہمیں سمجھاتے کہ ، عربی زبان میں کلام کی جن فروع یا اصناف کا ذکر ابنِ خلدون نے بھی کیا ہے، دراصل ، مدح ، ہجاِ اور رِثاہی ہیں۔ رثا کو مدح میں اور قطعہ اور رباعی کو غزل کی مد میں شامل کر دےنے کے جو دور رس نقصانات اردو ادب کو اٹھانے پڑے ان کی داستان طویل ہے۔اس کے علاوہ حالی اپنے مقدمہ میں صنفِ ہجا کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے۔ یہ شاید اسی فکری افراط و تفریط اور خلط ملط ہی کا نتیجہ ہے کہ فی زمانہ ”طنز و مزاح“ کی ترکیب اختراع کر لی گئی۔ ابنِ انشا نے کہا تھا کہ” ہم مزاح کے عہدِ یوسفی میں بستے ہیں“۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کی اس مضمون کی تیاری میں مجھے ےوسفی صاحب سے مشورہ کا موقع ملا، اس کے علاوہ میں نے اس ضمن میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، سے بھی گفتگو کی۔میری نیت ہے کہ آج کی محفل کی مناسبت سے اس مختصر مضمون کو بعد میں ایک جامع مضمون کی شکل دے سکوں۔
یوسفی صاحب کا کہنا ہے کہ طنز الگ چیز ہے، اور مزاح الگ چیز ہے۔ اردو کے ایک اہم مزاحیہ جریدے ”شگوفہ “ کے سالنامے میںجو 1985ءمیں شایع ہو اتھا، بعض نقادوں کو ایک سوالنامہ بھیجا گیا تھا ، ان نقادوں میں ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر قمر ریئس، پروفیسر نثار احمد فاروقی، شمس الرحمان فاروقی، باقر مہدی، ڈاکٹر وحید اختر، رشید حسن خان، شمیم حنفی، عمیق حنفی، ابنِ فرید، ڈاکٹر سلیمان، اطہر جاوید، منظر حنفی، اور مناظر عاشق ہرگانوی شامل تھے۔ اسی سوال نامے کی بنیادپروفیسر کلیم الدین احمد، اور ڈاکٹر عبدا لمغنی سے انٹرویو بھی کیے گئے۔
اس سوالنامے میں دو اہم سوال شامل تھے۔ اےک یہ کہ کیا آپ مزاح نگاری کو انشایئہ نگاری کہنے کے حق میں ہیں؟اگر آپ اس کے حق میں ہیں تو کیا مزاح گو شاعر کو انشایئہ گو شاعر کہا جاسکتا ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ تھا کہ اردو میں طنزو مزاحیہ ادب کو آپ معیار کے حساب سے کس نمبر پر رکھیں گے۔
ان سوالوں کے جواب نہ صرف اہم ہیں بلکہ توجہہ کے طالب ہیں۔ تقریباًان سب دانشوروں نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ مزاح نگاری، انشایئہ نویسی نہیں ہے۔ ڈاکٹر عبدالمغنی? نے کہا کہ ا صل صنف ادب دراصل صنفِ ہجا، یا ہجو ہے ، انگریزی میں بھی اور اردو میں بھی۔اس صنفِ ادب کے وسائل کے طور پر Irony بمعنی طنز، Wit بمعنی ظرافت، اور Humour بمعنی مزاح استعمال ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ احتشام حسین نے Satire کا بالکل غلط ترجمہ طنز کردیا تھا۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ رشید احمد صدیقی بھی Satire کی اردو مترادفات میں طنز اور ہجو کو شامل کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دنوں ہی معانیSatire کی پوری طرح ترجمانی نہیں کرتے، اور وہ خود اس ضمن میں ”طنز“ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
اردو ادب میں طنز و ظرافت کے موضوع پر کلیم الدین احمد کا مضمون نقوش کے طنزو مزاح نمبر میں 1995ءمیں شائع ہو تھا۔ وہ بھی ہجو، طنز، اور ظرافت میں تفریق کرتے ہیں۔یہاں وہ Humor کا ترجمہ مزاح کے بجائے ظرافت کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ، ”خالص ظرافت نگار ہو یا ہجو گودونوں صناع ہیں۔ دونوں کے کارنامے تخلیقی ہوتے ہیں۔ ظرافت نگار محض کسی بے آہنگی کا مضحکہ خیز بیان نہیں کرتا۔ وہ اس بے آہنگی کی تخلیق بارِ دگر کرتا ہے اور اسے دلچسپ سے دلچسپ تر بنا دیتا ہے۔ اس لحاظ سے ظرافت نگار اور کسی دوسرے صناع میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ بھی مشاہدے سے کام لیتا ہے۔ اس کے لیئے وسعتِ نظر ضروری ہے۔ ظرافت نگار کسی مشاہدے کو دیکھ کر مسکرا اٹھتا ہے لیکن کسی اور قسم کا جذبہ اس کے دل میں نہیں اٹھتا۔ اس کے برخلاف ہجو گو بے ڈھنگے ، ناقص، بدصورت مناظر دیکھ کر بے تاب ہوجاتا ہے۔ نا انصافی، بے رحمی ، ریاکاری کی مثالیں دیکھ کر اس کے دل میں نفرت ، غضب، حقارت، اور اسی قسم کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں۔۔ہجو گو ایک بلند پایہ اخلاق کا حامل ہوتا ہے، اور وہ اپنے بلند مقام سے انسانی کمزوریوں ، خامیوں، اور فریب کاریوں کو اپنے طنز کا نشانہ بناتا ہے“ فرائی کہتا ہے کہ Satire is Militant Irony ےعنی ہجو ایک جارح طنز ہے۔
اگر ہجو ایک صنفِ ادب ہے تو اس کی غرض اور مقصد کیا ہے؟ اس کو” ڈرائڈنDryden نے مختصراً اور بہت ہی جامع طور پر یوں بیان کیا ہے کہ”ہجو کا اصلی مقصد اصلاح کے ذریعہ برایﺅں کی ترمیم ہے“۔ ےہی تعریف مزاح اور ہجو کے فرق کو واضح کرتی ہے۔ مشتاق یوسفی کہتے ہیں ”کہ ان کی مزاح نگاری میں اصلاحِ معاشرہ کا کوئی طے شدہ مقصد نہیں ہوتا“۔ جبکہ ہجو نگار کی نیت میں اصلاحِ معاشرہ شامل ہے۔
اب سے پہلے میں نے مختلف نقادوں سے کیئے گئے اس سوال کا بھی ذکر کیا تھا کہ آپ اردو میں طنزو مزاحیہ ادب کو کس درجہ پر رکھیں گے۔ اس کے جواب میں زیادہ تر نقادوں نے اس کو دوسرے، تیسرے، یا کمتر درجہ کی چیز قرار دےا۔
میں نے اس ضمن میں مشتاق یوسفی صاحب سے وضاحت چاہی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ” مزاحیہ شاعری کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ہم اس قسم کی تخلیق کوHumorous Verse یا مزاحیہ موزوں کلام کہہ سکتے ہیں“۔ یہ فرق شاعری اور کلام ِ موزوں کے فرق پر مبنی ہے۔ یہ فرق شاعری کے ان مقاصد پر بھی مبنی ہے جسے ہم sublimeکہتے ہیں، یعنی ادب اور کلام کی وہ معےاری صورت جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔
کلیم الدین احمد لکھتے ہیں کہ ”اگر کسی شعر یا نظم میں بلند پایہ شاعری ہو سکتی ہے تو پھر ہجویہ نظم میں بھی بلند پایہ شاعری کا وجود ممکن ہے“۔ میرے خیال میں یہاں کلیم الدین احمد کے ذہن میں مزاحیہ موزوں کلام اورہجویہ شاعری کا فرق موجود ہے۔کلیم الدین احمد یہ بھی لکھتے ہیں کہ ”اردو میں ہجویہ شاعری کو زیادہ فروغ نہیں ہوا، ریختہ اور ہزلیات سے ےہاں بحث نہیں ہے۔ خالص ہجو کی طرف بہت کم شعرا نے توجہہ دی اور ان میں صرف دو چار ہی بیش و کم کامیاب ہوئے۔“ ان کا کہنا ہے کہ ”اردو میں صرف چار شعرا ایسے ہیں جن کی ہجویہ نظمیں قابلِ ذکرہیں، ےعنی سودا، اکبر، اقبال اورجوش“۔۔۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو نقادوں نے مزاحیہ ادب اور طنز اور ہجو پر کما حقہا دھیان نہیں دیا۔ لیکن سنہ 2005ءمیں ہندوستان میں اردو اکادمی دہلی کے زیرِ اہتمام اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت پر ایک کامیاب کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں پیش کیئے گئے مضامین کا ایک اہم مجموعہ بھی شائع کیا گیا۔ان مضامین میں ڈاکٹر علی جاوید کا مضمون ”اردو کا پہلا احتجاجی شاعر: جعفر زٹلی“ ان بدگمانیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے جن کے نتیجہ میں مزاحیہ یا ہجویہ شاعری کو دوسرے درجہ کا ادب سمجھا گیا ہے۔
ڈاکٹر محمداشرف عالم نے اپنی کتاب ”فارسی شاعری میں ہجا نویسی “ میں ہجو، مزاح، ظرافت، اور طنز کے جن عوامل کا ذکر کیا ہے، ان میںتحریف اور تقلیب ِ خندہ آور (Parody and Burlesque) رعایتِ لفظی (Pun)، مبالغہ (Hyperbole)، لطیفہ(Epigram)، اور بلاغتِ لفظی و معنوی (Rhetoric and Eloquence) پر تفصیلی گفگتو کی ہے۔
اسی کتاب میں ہجو کے صحیفہ اخلاق میں عربوں نے جو اصول مرتب کیے ہیں ان کے بارے میں رشید احمد صدیقی کا بیان اس طرح ہے کہ، (1) جو چیز فی نفسہِ قبیح یا مکروہ ہے اس کی ہجو کی جاسکتی ہے، (2) جسمانی یا فطری نقائص یا معایب کی مذمت ناروا ہے، (3) آبا¶ اجداد کی فروگزاشت پر اولاد کو موردِ لعن و طعن قرار دینا ناجائز ہے، (4) انہیں معایب کو قابلِ گرفت تصور کرنا چاہیئے جو عقل کے نزدیک قابلِ گرفت ہوں، اور (5) بہترین ہجو وہ ہے جو جلد ذہن میں محفوظ ہو جائے،جس کی ترکیب اور معنی میں پیچیدگی نہ ہو، جس کو عام مذاق جلد قبول کرے، اور صرف قبول ہی نہ کرے بلکہ اس کو صحیح سمجھتا ہو۔
کلیم الدین احمد نے اردو نثرمیں طنز اور ظرافت کے بارے میں کہا ہے کہ، ”اردو نثر میں طنزو ظرافت کی وہ کمی نہیں جو نظم میں ملتی ہے“۔ انہو ں نے طنز اور ظرافت کے مصنفین کو تین گروہوں میںتقسیم کیا ہے۔ پہلے گروپ میںوہ انشا پرداز ہیں جن کا نصب العین خاص ظرافت ہے، جو ہنسنے ہنسانے کے علاوہ کوئی دوسرا اندرونی مدعا نہیں رکھتے۔ دوسرا گروہ پ±ر مقصد ہے جو نقائصِ انسانی، سماجی ، تمدنی، اخلاقی، اور سیاسی ، غرض ہر قسم کے نقائص کو مٹانا چاہتا ہے۔اس قسم کے لکھنے والے طنز کے عوض ظرافت اور طنز، یا زیادہ تر طنز سے کام لیتے ہیں۔تیسرا گروہ وہ ہے جس کی ظرافت میں فلسفیانہ رنگ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنی تصنیف ”اردو ادب میں طنز و مزاح“ میں سودا کی بعض ہجویات پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ، سوداکی وہ ہجویات جن کا انداز عمومی، یا جن کی اہمیت سماجی ہے،کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیںکی جاسکتیں، اور دراصل سودا کی یہی ہجویات پائدار عناصر کی حامل بھی ہیں۔ ان ہجویات میں معاملات کو مبالغہ کے ساتھ پیش کرکے زندگی کی ناہمواریوںکو نشانہءتمسخر بنایا گیا ہے۔ اگرچہ مبالغہ آرائی نہایت مشکل چیز ہے اور اس میں توازن کی کمی خود مبالغہ کرنے والے کو نشانہءتمسخر بنا دیتی ہے۔، لیکن ان ہجویات میں مرزا سودا نے کچھ ایسے نکھرے ہوئے اور جچے تلے انداز میں مبالغہ آرائی کی ہے کہ یہی چیز ان تخلیقات کا حسن گئی ہے۔اس سلسلے میں سودا کا قصیدہ شہر آشوب، جس میں انہوں نے سماجی حالات کو نشانہءتمسخر بنایا، قصیدہ در ہجوِ اسپ، نرپت سنگھ کا ہاتھی، وغیرہ قابلِ ذکر ہجویات ہیں، جن میں کینہ پروری کے بجائے طعن و ظرافت کا عنصر نمایاں ہے۔
یہاں اک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ’ہجو‘ عربی، فارسی، اور مغربی ادب میں ایک باقاعدہ اور مکمل صنفِ ادب ہے، اور اگر اردو کے بڑے ادیبوں اور شعرا نے اپنے کلام اور اپنی نثر میں بہترےن طنز اور بہترین مزاح کو بہترےن طور پرپیش کر کے لازوال ادب تخلیق کیا ہے، تو اردو والوں نے صنف ہجو سے کیوں مَن موڑ لیا۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔اردو شاعری کے ارتقائی دور میں مقصدیت سے باقاعدہ گریز کیا گیا، جس کے نتیجہ میں نظیر اکبر آبادی جیسے شاعر کو بھی آج تک وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ مستحق تھے۔ اس کے علاوہ درباری آداب اور مصلحتوں کے تحت ہجو میں ذم، قباہت، اور پھکڑ پن تلاش کرکے اسے نچلے درجہ کی تخلیق قرار دے دیا گیا۔ بعد کے آنے والے نقاد بھی ، جعفر زٹلی، میر، سودا، انشا، اور مصحفی کے ہجویہ کلام کو اخلاقی قدر وں کی بنیاد پر ارزل قرار دیتے رہے۔ حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں اس صنف کو گنا تک بھی نہیں۔ بعد میں خود رشید احمد صدیقی نے Satireکے ترجمہ میں ہجو، اور طنز کی اصطلاحیں تسلیم تو کیں، لیکن یہ فیصلہ کردیا کہ وہ اس ضمن میں طنز کی اصطلاح اختیار کریں گے، ےہ جانتے ہوئے بھی کہ طنز کلام کی صرف ایک صفت ہے جو خود ہجویہ کلام کا وسیلہ اور حربہ ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صنف ہجو ارتقائی عمل سے گزرکر اردو نظم میں پوری طرح سے موجود تو رہی، لیکن اپنے نام کی قربانی دے کر۔وقت کی قلت کے پیش نظر میں آپ کے سامنے جعفر زٹلی ، سودا، اور میر تقی میر کی مختصر مثالیں پیش کرتا ہوں۔ جعفر زٹلی کی ایک اہم ہجو کچھوا نامہ کے نام سے ہے جس میں ایک مولوی یا شیخ ایک کچھوے کو جس نے اس کی جان بچائی تھی دغا دیتا ہے
”کچھوے نے ان سے پھر کے کہا تم نے بعد علی
مارا امام دونوں کو کرجگ میں کھل بلی
انصاف کون تھا کہ نہ سمجھا بری، بھلی
کیوں توڑے تم نے دونوں گ±لِ گلشنِ ولی
یہ غم عیاں ہے بلبل و ہر نسترن سیتی“
سودا اپنی معروف ہجو، قصیدہ در ہجوِ اسپ المسمیٰ بہ تضحیک روزگار میں لکھتے ہیں،
” ہر روز اختروں کے تیئں دانہ بوجھ کر،
دیکھے ہے آسماں کی طرف ہوکے بیقرار
۔ہے پیر اس قدر کہ جو بتلاوے اس کا سن
پہلے وہ لے کے ریگِ بیاباں کرے شمار۔
مانندِ اسپِ خانہءشطرنج اپنے پاﺅں
جز دستِ غیر کے نہیں چلتا ہے زینہار“ اور میر صاحب کا معروف شعر:
”شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا میخانے میں،
جبہ، خرقہ، کرتا ، ٹوپی، مستی میں انعام کیا“
اردو ادب میں ہجو نگاری، مزاح نگاری، اور طنز نگاری کے مختصر جائزے، مسائل، عوامل، اور اس ضمن میں کچھ نقادوں کے خیالات کو پیش کرنے کے بعد ہم ان کے تناظر میں جب ضامن جعفری کی کتاب گ±ل افشانی ءگفتار پر غور کرتے ہیںاور ان کے پیش لفظ پر توجہہ دیتے ہیں تو ہم پر واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی شاعری میں طے شدہ تعمیری مقاصد ہیں، وہ خود لکھتے ہیں کہ ” ہر دور کا طنزو مزاح ا±س دور کے معاشرے ، تہذیب و تمدن ، اور جملہ رائج الوقت اقدار کا آئینہ ہوتا ہے، یہی اس کا اہم تعمیری کردار ہے“، وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ”ہم دیکھیں تو تعمیری، با مقصد اور معیاری طنز و مزاح کا اور شستگی اور شائستگی کا چولی دامن کا ساتھ صرف مناسب ہی نہیںبلکہ ضروری بھی ہے“۔
اس مضمون میں بیان کیئے گئے نکات کی بنیاد پر ہم بہت اعتماد کے ساتھ یہ تجویز کرسکتے ہیں کہ گل افشانی گفتار دراصل اردو زبان کی ارتقاءیافتہ ہجو نگاری ہے جس میں طنز، ظرافت، اور مزاح کے وسائل کو سلیقہ سے برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب ہم ضامن جعفری کی زبان سے سنی گئی نظموں کو تحریر کی صورت میں دیکھتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ہجویہ، طنزیہ ، اور مزاحیہ شاعری کے اصولوں اور صفات کو برتتے ہوئے اپنی الگ راہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں ان کا کلام سید محمد جعفری کے کلام سے مختلف ہے ، باوجودیکہ وہ اہم شاعرسید محمد جعفری کا احترام کرتے ہیں اور کہیں کہیں مشاعروں میں ان کے انداز میں اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔
میں ادب اور تنقید کے طالبِ علم کے طور پر نورتھروپ فرائی کا اتباع کرتے ہوئے قدری فیصلوں سے گریز کرتا ہوں، اس کی وجہہ یہ ہے کہ شعر کی قدر کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ لیکن ضامن جعفری صاحب کے کلام میں سے جس کلام کو دیر پا مقبولیت حاصل ہونے کے امکانات ہیں ان میں ان کی نظم ”مولوی صاحب جنت میں“ ایک اہم نظم ہے، جس کے کچھ بند ضرب المثل بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو نظمیں مجھے ذاتی طور پر اثر پذیر لگیں ان میں، اصلاحِ کلام، ادبی صورتِ حال، ادب کی خدمت میں، شریعت بل، اور بقرعید شامل ہیں۔ اردو کے مرکزی دھارے سے دور پردیس میں رہنے والے شعرا اور ادیبوں کی ایک مشکل یہ ہے کہ ان کے کلام ، تحریر،اور تصنیف کی وہ پذیرائی نہیں ہو پاتی جن کی ہر اچھی تخلیق مستحق ہوتی ہے۔خود اردو کے مرکزی دھارے سے منسلک ادیبوں کو بھی ان ہی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پردیس میں رہنے والوں کو یہ مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے کہ ان کے کلام اور تحریر کا ابلاغ ادب کے مرکزی دھارے کے جرائد ، رسائل ، اور وسائلِ ابلاغ کے ذریعہ نہیں ہو پاتا۔ یہی وجہہ ہے کہ پردیس میں تخلیق کردہ بعض بہت عمدہ تخلیقات بھی قبولِ عام سے محروم رہ جاتی ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ضامن جعفری صاحب کی” گ±ل افشانی گفتار “کو ہمارے ادب کے مرکزی دھارے میں وہ قبولیت حاصل ہو سکے گی جس کی یہ کتاب مستحق ہے۔
کتابیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گ±ل افشانیءگفتار: ضامن جعفری ؛ 2010
مقدمہ شعرو شاعری: الطاف حسین حال؛ 1991
اردو ادب میں طنزو مزاح: ڈاکٹر وزیر آغا ؛ 1966
اردو ادب میں طنزو مزاح کی روایت: ڈاکٹر خالد محمود(مرتب)؛ اردو اکادمی دہلی، 2005
نقوش، طنزو مزاح نمبر: طفیل احمد (مدیر)؛ 1959
شاہراہ، طنز و مزاح نمبر؛ فکر تونسی (مرتب)؛ 1955
شگوفہ، ہندوستانی مزاح نمبر (نثر): ڈاکٹر سید مصطفی کمال (مدیر)؛ 1985
فارسی شاعری میں ہجا نویسی: ڈاکٹر اشرف عالم ؛ خدابخش لائبریری ، پٹنہ؛ 2003
اردو شاعری کا مزاج: وزیر آغا؛ 1965
اردو طنزو مزاح؛ابنِ اسماعیل؛ 1988
طنزو مزاح کا تنقیدی جائزہ: خواجہ عبدالغفور؛ 1983
مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون: ابنَ خلدون(ترجمہ مولانا عبدالرحمان دہلوی)؛ 1993
کلیاتِ سودا، بترتیبِ جدید: مرزا رفیع سودا
Anatomy of Criticsm: Northrop Frye; 1990
The Arabic Literary Heritage (The Development of Genres and Criticism:)
Roger Allen: 1998
The Bad and Ugly (Attitudes Towards Invective Poetry (Hija) in Arabic Literature
Geert Jan Van Gelder: 1989

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں