عمران خان توجہ فرمائیے! 333

یوم حساب دور ہے؟

تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی اللہ کریم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حکم دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ میں اپنے بندوں سے ستر ماﺅں سے زیادہ پیار کرتا ہوں اور خبردار کیا کہ حقوق اللہ قابل معافی ہیں مگر حقوق العباد کی معافی نہیں ہے۔ اگر ہم کبھی غور کریں اور وجہ بربادی سکون قلب پر غور فرمائیں تو وہ صرف اسلام سے دوری ہے۔ جب انسان اللہ کریم کو راضی کرنے کی بجائے دنیا اور دنیا کے بادشاہوں کو راضی کرنے چل پڑے تو وہ اپنی حقیقی منزل سے بھٹک جاتا ہے اور رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ دولت اور منصب کا غرور اسے برباد کردیتا ہے۔ یہ اللہ کی شان ہے اور ہاں اگر کوئی انسان اپنی عبادت پر تکبر کرے تو اس کی بھی ہرگز معافی نہیں ہے۔ دیکھتے دیکھتے زمانہ بدل گیا۔ انسان انسانیت سے دور ہوتا جارہا ہے۔ انسان کے اوپر حیوانیت کا غلبہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی لئے عزت و آبرو و احترام کی کمی اور ظلم و جبر پروان چڑھتا جارہا ہے۔ کیا مہذب معاشروں کا یہ شیوہ ہے کہ اپنے مفادات کے لئے دوسروں کا گلہ کاٹ دیا جائے اور محافظ ہی لٹیروں کا روپ دھار لیں۔ مظلوم کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہو۔
چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں، بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر انہیں قتل کردیا جائے اور پھر اللہ کا کرم بھی تلاش کیا جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ہمیں شکر بجا لانا چاہئے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے کی وجہ سے ہم لوگ عذاب الٰہی سے محفوظ ہیں وگرنہ پہلی قوموں کی طرح جانور بنا دیئے جاتے۔ کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ہمارے اندر غیرت ایمانی زندہ ہے یا مر چکی ہے؟ اور شاید میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج غیرت مسلم سسک نہ رہی ہوتی تو کشمیر میں اپنی کشمیری بہنوں، بیٹیوں کی آہیں ہم پر ضرور اثر کرتیں اور ہم جہاد سے چشم پوشی کرکے دنیا کے مشاغل میں نہ کھوتے ہوتے۔ اگر ہمارا ضمیر زندہ ہوتا تو بڑے عہدے حاصل کرکے اور بادشاہوں کی قربت میں بیٹھ کر آٹا، چینی، نایاب کرکے اپنی تجوریاں نہ بھر رہے ہوتے اور ملک پاکستان اور پاکستانی قوم کی دنیا میں بدلے توقیری نہ ہوتی۔ آج کل پاکستان میں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ مگر مقام افسوس ہے کہ دونوں طرف آئی ایم ایف کے لوگ بیٹھے ہیں۔ جو پاکستانی قوم کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کے درپے ہیں مگر قوم کب تک خاموش رہے گی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ ایک ایسی فہرست مرتب کی جائے جن میں ان لوگوں کے متعلق بتایا جائے کہ جنہوں نے اس ملک کو نہیں لوٹا۔ جو نہ ہونے کے برابر ہو گی۔ مگر ہر کوئی اپنی ایمانداری کا ڈھنڈورہ پیٹ رہا ہے۔ ڈرائی کلین کی مشینیں دن رات کام کررہی ہیں اور کرپٹ لوگوں کو صاف ستھرا کرکے نکال رہی ہیں اور وہ وکٹری کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی پاک دامنی کا سرٹیفکیٹ ہاتھوں میں تھامے مستقبل کے سہانے خواب دیکھتے اور دکھاتے نظر آرہی ہیں۔ میں کسی خاص گروہ کی بات نہیں کررہا، اب بس کریں بہت ہو گیا، ایک مخصوص گروہ جو ہر دور میں تجوریاں بھرتا آرہا ہے، اب وہ باز نہ آیا تو میں ان کے گوداموں اور گھروں میں بھوک، غربت اور مہنگائی سے مجبور قوم کو لوٹ مار کرتے دیکھ رہا ہوں۔ ڈریں اس وقت سے جب یہ قوم سڑکوں پر نکل کر ان سے خود حساب لے گی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یوم حساب دور ہے تو وہ احمقں کی جنت میں رہتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں