جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا 304

23 صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی یافتہ ڈرامہ نویس خواجہ معین الدین

مارچ 1924ءکو حیدر آباد دکن کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ کی مناسبت سے نام دیا گیا۔ بچے کے والد کو بھلا کیا اندازہ تھا کہ آگے چل کر یہ ریاست ِ دکن میں اپنا نام کما نے کے بعد نئی مملکتِ پاکستان میں جدید ڈرامہ نویسی کا بانی کہلائے گا۔ خواجہ معین الدین نے زمانہ طالبِ علمی سے ڈرامے لکھے اور پیش بھی کئے پھر ریڈیو دکن سے ریڈیائی ڈرامے نشر کرنے کا موقع ملا۔ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد سے 1946 میں گریجوایشن کرنے کے بعد انہوں نے ریڈیو دکن سے ایک چبھتا ہوا طنزیہ ڈرامہ ”گنبد کی آواز“ لکھا اور پیش کیا۔ خواجہ صاحب نے اپنے ریڈیائی ڈراموں میں ریاستِ حیدر آباد کے معاملات میں بھارتی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کی۔پھر 1949 میں جب بھارت فوجی جارحیت کے زریعے ریاستِ حیدر آباد پر قابض ہوا تو خواجہ صاحب کے پاس پاکستان ہجرت کر جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ 1954 میں تحریر کیا جانے والا ڈرامہ ” تعلیمِ بالغاں “ ان کا ایک بے مِثل شہہ پارہ ہے۔ قائدِ اعظم رحمة اللہ علیہ کا مشہورِ زمانہ قول: اتحاد، تنظیم اور ایمان اس ڈرامے کا مرکزی خیال ہے۔ اس کی بے ساختگی اور ہر دل عزیزی دیکھئے کہ یہ بارہا اسٹیج کیا گیا اور بار بار ہی ریکارڈ توڑ کامیاب ہوا۔ پھر اس کو ٹیلی کاسٹ بھی کیا گیا اور کئی مرتبہ نشرِ مکرر پیش ہوا۔ میرے خیال میں تو ڈرامہ لکھنے والوں کے لئے اس میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہے کہ خواجہ صاحب کے ڈراموں میں شاید ہی کوئی خاتون کردار ہو !! اس کی بنیادی وجہ اس دور میں اسٹیج پر خواتین کے کام کو معیوب سمجھا جانا تھالیکن ڈرامہ دیکھنے والے اس میں ایسے مگن ہوتے کہ خواتین کرداروں کی عدم موجودگی محسوس ہی نہیں ہوتی !! یہ بے شک خواجہ صاحب کا کمال ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ خواجہ معین الدین بھارت سے آئے ہی اس لئے تھے کہ وہاں کھل کر ڈرامے میں اپنی بات نہیں کہہ سکتے تھے۔ اب یہاں مملکتِ پاکستان کے مقتدر حلقے ان کی پذیرائی تو کیا کرتے خود خواجہ صاحب ایک لمبے عرصے ان کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ خواجہ صاحب کے یہ بے ساختہ ڈرامے کتابی صورت ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکے البتہ ان ہی کی بنائی ہوئی ’ انجمنِ ڈرامہ گِلڈ کراچی ‘ نے ان کے انتقال کے بعد کچھ ڈرامے شائع کئے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق رحمة اللہ علیہ خواجہ صاحب کے متعلق کہتے ہیں : ” پہلے اردو تھیٹر کے لئے جو ڈرامے لکھے جاتے تھے و ہ یا تو محض خیالی ہوتے تھے یا پرانے قصوں اور داستانوں پر مبنی ہوتے تھے۔ان میں گانوں کی بھرمار ہوتی۔ہر شخص گا کر بات کرتا اور جواب دیتا یا پر تکّلف مضحکہ خیز عبارت میں۔روز مرہ زندگی سے ان ڈراموں کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن خواجہ صاحب کے ڈرامے ”لال قلعہ سے لالو کھیت“ حقیقی واقعات پر مبنی کھیل ہے …معین الدین صاحب نے اس کا حق ادا کر دیا “۔ ہمارے ملک کے نامور براڈکاسٹر آغا ناصر صاحب نے خواجہ معین الدین صاحب کے ساتھ ایک عرصہ گزارا۔خواجہ صاحب کو قریب سے جتنا انہوں نے دیکھا اور جانا شاید ہی کسی اور کے حصّہ میں آیا ہو۔ آغا صاحب کے بقول خواجہ صاحب پاکستان کے سب سے بڑے ڈرامہ نویس تھے جنہوں نے کم ڈرامہ لکھا لیکن بہت شہرت پائی۔ان کے تمام ڈرامے قومی نوعیت کے ہیں اور ہر ایک کھیل مقصدیت لئے ہوئے ہے۔ ظرافت، شگفتگی اور طنز و مزاح کے پیرائے میں بات کرنے کاجو ڈھنگ خواجہ معین الدین کو آتا ہے وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوا“۔ آغا صاحب کے مطابق خواجہ معین الدین صرف ڈرامہ لکھتے ہی نہیں تھے خود ڈرامے بھی پیش کرتے تھے۔ خواجہ صاحب اپنے ڈراموں کی ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیتے، سیٹ ڈیزائن میں راہنمائی کرتے اور اپنی ٹیم کے منتظمِ اعلیٰ کی ذمہ داری بھی سنبھالتے تھے۔ چوںکہ وہ ان مرحلوں اور مشکلات سے آگاہ تھے جو ڈرامہ ٹیم کو پیش آتی ہیں اس لئے وہ اسکرپٹ لکھتے وقت اِن باتوں کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔چنانچہ انہوں نے ڈرامے وسائل اور حالات کو سامنے رکھ کر لکھے اور بغیر کسی مشکل کے پیش کئے ۔ آغا صاحب کہتے ہیں کہ انہیں ایک مرتبہ منو بھائی نے بتایا کہ ایک شام وہ اور پاکستان ٹیلی وژن لاہورمرکز کے پروڈیوسر یاور حیات کہانی لکھوانے خواجہ صاحب کے پاس گئے۔خواجہ صاحب نے جس طرح ہماری خاطر تواضع کی اس سے ہم اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے لگے۔ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے کورنگی سے ایک رکشہ والاان سے ملنے آگیا۔خواجہ صاحب نے اس کی بھی ویسی ہی تواضع کی اور اس کی بات بھی اسی توجہ سے سنی جس انہماک سے وہ ہماری باتیں سن رہے تھے۔تب معلوم ہوا بڑے آدمی ہم نہیں بلکہ وہ خود ہیں !! پاکستان ٹیلی وڑن اسلام آباد مرکز کے نیوز کاسٹر اظہر لودھی صاحب نے ایک مرتبہ خواجہ صاحب کا انٹرویو کیا۔باتوں باتوں میں اظہر لودھی صاحب نے سوال کیا : ”آپ نے یہ ڈرامہ پندرہ بیس سال پہلے لکھا لیکن آج بھی اس میں وہی تازگی ہے اور جن سیاسی اور معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے وہ آج کے دور کے مسائل معلوم ہوتے ہیں۔یہ ڈرامہ نگاری کا کمال ہے! “ اس پر خواجہ صاحب نے بر جستہ جواب دیا: ” اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ اس ملک کی بد قسمتی ہے کہ جن مسائل کو میں نے آج سے بیس برس پہلے اپنا موضوع بنایا وہ آج بھی برقرار ہیں!!“۔ آغا ناصر لکھتے ہیں: ”مجھے یاد نہیں کہ خواجہ معین الدین سے میری ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی۔یہ سچ ہے مجھے ان کا ملنا یاد نہیں مگر ان کا بچھڑنا یاد ہے۔نومبر 1971 کے پر آشوب زمانے میں سردیوں کی ایک شام جب میں راولپنڈی/ اسلام آباد ٹیلی وژن سینٹر میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا ، کراچی کے معروف ڈرامہ پروڈیوسر کنور آفتاب احمد کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا ’ خواجہ معین الدین کا انتقال ہو گیا ‘۔ دسمبر 1971 کی جنگ کے بعد جب میں کراچی گیا تو میرے اور خواجہ معین الدین کے ایک مشترکہ دوست نے مجھ سے کہا: ’اچھا ہوا، وہ پہلے ہی مر گئے ورنہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خبر سن کر انہیں ویسے بھی مر جانا تھا‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں