سلمان اطہر

ویکسین

ویکسین کیا کیا نہ شخصیاتِ زمانہ چلی گئیں بیتے دِنوں میں کھو گئے وہ نقش بہترین ہم سے ہمارے گوہرِ نایاب چھین کر اب کیا جھلک دِکھائے گی، کورونا ویکسین

بلاول

بلاول حیف! اب ملکی سیاست میں یہ بانکے لیڈر جن کے آنے سے نہ بدلے کہیں وضع ہنگام کس طرح بارِ حکومت یہ اٹھا پائیں گے خاص کر ننھا ”بلاول“ جو ہے نازک اندام

صدرِ امریکہ

صدرِ امریکہ کہیں کیا صدرِ امریکہ کی مد میں ہوا تھا جو بھی ہونا، ہو گیا ہے بضد ہیں آپ، تو اتنا کہیں گے کرونا کو کرونا ہو گیا ہے

عیش

عیش لیڈرانِ وطن کے کیا کہنے اُنگلیاں گھی میں سر کڑاہی میں عیش اور کیش ٹھاٹ باٹ کے ساتھ مُفت کی گویا بادشاہی میں

احوال

احوال ہے کراچی کہ شہرِ نا پُرساں اِس کا احوال کیا سُنے کوئی جِس کی اونچائی و ترقی کے خواب ہی خواب بس بُنے کوئی

کراچی

کراچی تمسخرانہ یہ انداز یہ لب و لہجہ جو نفرتوں کی ہے دِل میں خلیج پاٹ اُسے یہ بغض اہلِ کراچی سے کس لئے آخر براجمان ہے جس شاخ پر نہ کاٹ اُسے

مسالک

مسالک دلیل و حجت و بحث و بیاں سے قطع نظر کہ بحرِ درد میں اِک قطرہِ حَنین تو ہُوں عقیدے اور مسالک کی گفتگو سے پرے بھلے شیعہ نہ سہی، عاشقِ حُسینؑ تو ہُوں

پاکستان

پاکستان ہمارے طرزِ سخن میں بسا ہے پاکستان یہ سچ نہیں کہ محبت نہیں وطن سے ہمیں اسی کے دَم سے مہکتا ہے شاعری کا مزاج مشامِ حرف مِلے ہیں اسی چمن سے ہمیں

آن لائن

آن لائن دانت اب دو ہوں کہ ہوں چار کوئی فکر نہیں اب ضرورت نہیں فی الحال کسی نخرے کی دُم کٹا ہو کہ کٹا سینگ ہو کیا غم ہے کوئی آن لائن ہے خریداری میاں! بکرے کی

میر قافلہ

میر قافلہ نئی ہے راہ، اصولِ سفر ہیں بدلے ہُوئے ہیں میرِ قافلہ مصروفِ سعیِ آگاہی ابھی تعینِ منزل کی پیش رفت میں ہیں مِلے گا دیکھئے کس کس کو فخرِ ہم راہی

ٹکٹ

ٹکٹ موت کی ریل گاڑیوں کے بیچ زندگی کے پلیٹ فارم پہ ہم بس یہی سوچ کر ہیں بیٹھے ہوئے اپنا شاید ٹکٹ نہیں کنفرم

شاید

شاید اِسی لمحے کو جی لے دِل لگا کر مسائل کا کوئی جب حل نہیں ہو جو گزرا ہے وہ بہتر آج سے تھا ابھی جو ہے وہ شاید کل نہیں ہو

ثبوت ہیں ہوشیار و خبردار ایسی چالوں سے وہ کاٹتا ہے وہی جو بھی فصل بوتا ہے نہ بچنے پائیں گے اب دُشمنانِ ارضِ وطن کوئی بھی حادثہ ازخود ثبوت ہوتا ہے

حسبِ حال

حسبِ حال بڑا ہی ناز تھا اس بے وفا کی دوستی پر سنبھال کر رکھی عمر عزیز برسوں سے نہ چھوڑ جائے ہمیں بیچ راستے پہ کہیں خیال آنے لگے ذہن میں یہ پرسوں سے

طائفے

طائفے صبیحہ، فیضی و جاوید یا کہ خالد ہوں یہ ترجمان رہے ہیں فن و ثقافت کے ذرا سی دیر کو ٹہرے تھے بزم ہستی میں چلے ہیں سُوئے عدم طائفے محبت کے

قیامت

قیامت اِک غول بے نوا کا ہے سرگرم آج کل رنگت کُھرچ رہے ہیں جو تصویرِ ذات کی لگتا ہے ہم کھڑے ہیں قیامت کے آس پاس منزل ملے گی اب کسے راہِ نجات کی

ذات

ذات نقاب پھرتے ہیں پہنے ہر اِک ڈیزائن کے تکون، بیضوی، چوکور، مستطیل ابھی جو اپنی ذات کی ناکامیوں سے چھپ چھپ کر نکالنے کے لئے بیٹھے ہیں سبیل ابھی

حادثے

حادثے کہیں جائے اماں ملتی نہیں ہے بشر قسمت کو اپنی رو رہے ہیں زمینی سانحے کیا کم نہیں ہیں فضائی حادثے جو ہو رہے ہیں

ماں

ماں یہ جو رہتا ہے تو دنیا میں مصیبت سے پرے اب بھی چاہت سے بلائیں تری لیتی ہوگی ماں تو پھر ماں ہے جہاں بھی رہے پیارے اطہر کہیں جنت سے دعائیں تجھے دیتی ہوگی

ماہِ صوم

ماہِ صوم اس سال ماہِ صوم میں ہے امتحانِ زیست وہم و گماں کے جال میں ایمان قید ہے کس کو ملی ہے حکم عدولی کی یہ سزا شیطان کا پتا نہیں، انسان قید ہے

خلقت

خلقت گھروں میں چُھپ گئی ڈر کر نقاب کے پیچھے فضائے دہر سے معدوم ہو گئی خلقت خُدا نے کھینچ لئے ہاتھ بے نیازی سے صلائے عام سے محروم ہو گئی خلقت

کرونا

کرونا نہیں جِس کے مُقابل کوئی حربہ کارآمد کرونا بیٹھ جائے گا کہیں مایوس ہو کر طریقہ ہائے حفظِ ماتقدم خوب ہے یہ چلو اِک بار دیکھیں زندگی سے ہاتھ دھو کر

حقوقِ نسواں

حقوقِ نسواں حیا و شرم و وفا و خلوص و صبر و رضا مناسبت ہے اِنہیں حُسنِ ازدواج کے ساتھ نہ کوئی مرد ہو قابض حقوقِ نسواں پر نکاح نامہ میں یہ شِق ہو اندراج کے ساتھ

نقاب

نقاب حال سے ہو گئی ہے جو بے حال لمحہ فکر ہے مرے یارو بے نوائی کے ایسے عالم میں ہو کے خانہ خراب پھرتی ہے اپنے کرتوت پر کبھی دُنیا شرمساری سے منہ چھپاتی نہیں موت کا خوف جب مزید پڑھیں

کبڈی

کبڈی پڑا مُلک میں جب سے قحط الرجال ہمارے لئے یہ بھی سوغات ہے مُسلسل کئی بازیاں ہار کر کبڈی ”جیتے بڑی بات ہے“

تہتر سال

تہتر سال سُن رہے ہیں بھائیو! پچھلے تہتر سال سے ہم عوام الناس کو خوش حال دیں گے زندگی حکمرانوں کے انہی بوسیدہ وعدوں پر کہیں زندگی کے چار دِن برباد نا کردیں سبھی

صُلح صفائی

صُلح صفائی یہ حادثاتِ زمانہ یہ واقعاتِ عالم نظام ہست بالآخر بدل نہ جائے کہیں یہی ہے صُلح صفائی کا وقت مولا سے کہ تیرے ہاتھ سے یہ پل نکل نہ جائے کہیں

رویہ

رویہ بُرا نہ مرد ہے کوئی نہ کوئی عورت ہے عرویہ ہے جو اِنہیں نیک و بد بناتا ہے اسی لئے کہ ہے کچھ ایسی فطرتِ انسان معاشرہ بھی تبھی اپنی حد بناتا ہے

حادثہ

حادثہ جو کہہ رہے ہیں یہ اندازِ انکساری سے فضائی حادثہ واللہ حادثاتی تھا مُسافرانِ عَدَم کی مُسافرت کے لئے تو گویا یہ بھی عمل کوئی تجرباتی تھا

مزاج

مزاج پلٹ گیا نہ ہو شاید مزاج موسم کا خلافِ فطرتِ انسان کُچھ نہیں ممکن سرشتِ نفس میں قائم بوجہ خیر و شر بدل گئی کہیں ترتیبِ حُسنِ رات اور دِن

سال

سال گُزرتی ساعتیں روکے نہ رُک سکیں پَل بھر صدا یہ کان میں آئی کہ سال بیت گیا ہے برقرار جو برسا برس سے قیدِ حیات مِلی نہ اب بھی رہائی کہ سال بیت گیا

بُخار

بُخار دوائے حُجت و تکرار دستیاب نہیں وجودِ زعم سے زائل ہو کِس طرح یہ بُخار فتورِ عقل کا کوئی علاج نا ممکن ہر ایک مسئلہ جب خُود ہو مسئلوں کا شکار

وکیلِ عام

وکیلِ عام نظام عدل میں ٹہرے وکیل عام سبھی غرورِ خُودسری میں کچھ سجھائی دیتا نہیں چلائیں ہاتھ وہ جن کا دماغ چلتا نہیں یہ کُورچشم ہیں اِن کو دکھائی دیتا نہیں

گُل سما

گُل سما عمر نوخیز سنگ سارہوئی کس طرح دست قہر و وحشت سے خار زارِ جنوں میں کھلتے ہوئے اپنی دھن میں لہکنا باقی تھا بے رحم رسمِ کاروکاری نے وقت سے پہلے تجھ کو نوچ لیا گل سما تو مزید پڑھیں

گردن

گردن کبھی ہے اغوا کبھی قتل و آبرو ریزی کہیں ہے چھین جھپٹ اور کہیں فساد بپا مرے وطن کی یہ بد قسمتی ہے کیا کیجئے دبائے ریت میں گردن پڑے ہیں فرماں روا

بیماری

بیماری عارضِ س±رخ و سپید اور گ±لابی آنکھیں کیسی رنگین بیماری سے ہیں بیمار بندھے حلقہِ آہنِ زنجیرِ ضمانت کے ط±فیل “کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے”

حکمران

حکمران اکڑ، غرور، تکبر، گھمنڈ کے آگے ڈرا ہوا نظر آیا حکومتی انصاف جو فردِ جرم بھی عائد ہے باوجود اس کے یہ حکمران ہیں اِن پر ہیں سات خون معاف

مولانا

مولانا رواں دواں ہے اگرچہ یہ کُوچِ آزادی سمیٹتے ہوئے دامن میں آپ عالم و دیں نکِل پڑے نہیں یُوں ہی جنابَ مولانا حسابِ زادِ سفر بھی ہے اِن کو ذہن نشیں

خزاں

خزاں ہمارے دِل کو ہمہ وقت گ±دگ±داتے ہیں کہ شاعرانہ طبیعت کو آزماتے ہیں خزاں کے رنگ برنگے ک±شادہ دامن میں جو نقش جاتی بہاروں کو م±نہ چِڑاتے ہیں

ارضِ وطن

درندگی و سیہ کاریوں کے نقشِ قدم گلی، محلہ و بازار کی ہو راہ کوئی یہ کاروانِ ہوس کی کہیں سے درآمد یہ میری ارضِ وطن ہے کہ قتل گاہ کوئی