امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 692

کس کارَن جھوٹی بات کرو

جھوٹی بات کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ سامنے کے معنی تو سچ کے بر عکس ہیں۔ لیکن آپ اس کو غلط بات، غلط بیانی، افواہ سازی، غلط کام وغیرہ کے معنی میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں آپ Fake News یعنی جعلی خبروں کی اصطلاح بھی سنتے ہوں گے۔ سیانے کہتے تھے کہ ’سچ کا بول بالا، جھوٹ کا منہ کالا ‘۔ لیکن پرانوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دور آئے گا کہ جب ’ سچ کا منہ کالا، اور جھوٹ کا بول بالا ‘۔۔ ہم شاید اب اسی دور میں جی رہے ہیں۔ سیانے یہ بھی کہتے ہیں، اور ’پرانوں‘ میں لکھا ہے کہ ہم جس دور یا جس ی±گ میں آج ہیں وہ کَل ج±گ، کَل ی±گ ، یا کالی دیو کو دور ہے۔ (اس کو کالی ماتا یا کالی دیوی کا دور مت سمجھیے گا )۔ کہتے ہیں کہ یہ دور ابھی کم از کم ایک ہزار سال اور چلے گا۔ اس دور کی جو علامات ہیں انہیں دانا ، ق±ربِ قیامت کی نشانیاں بھی کہہ سکتے ہیں جو کچھ یوں ہیں:
۔۔حکمراں من مانیاں کرنے لگیں گے اور عوام یا پرجا سے ان کی ہمت سے زیادہ خراج وصول کریں گے۔
۔۔ حکمراں روحانیت کا پرچار کرنا چھوڑ دیں گے۔ اپنے عوام کی حفاظت نہیں کریں گے۔ دنیا کی تباہی پر تل جایئں گے۔
۔۔عوام رزق کی تلاش میں غیر ملکوں کو جوق در جوق ہجر ت کریں گے۔
۔۔لالچ اور خواہشات کا غلبہ ہو گا ، اور انسان انسان کادشمن ہو جائے گا۔
۔۔لوگ ایک دوسرے کو بلا وجہہ قتل کریں گے اور اسے برا نہیں سمجھیں گے۔
یہ تو وہ نشانیاں ہیں کہ جو پ±رانوں میں لکھی ہیں۔ دوسرے دھرموں اور مذاہب میں یہی نشانیاں اور طرح سے لکھی ہیں۔ پھر یہ خوشخبری ہے کہ اس دور کے گزرنے کے بعد ایک سنہرا دور آئے گا جس میں کوئی نجات دہندہ یا مصلح آئے گو اور انسانوں کو دکھ درد اور مصیبتوں سے نجات کی راہ پر لے جائے گا۔
اب یہ اپ پر منحصر ہے کہ آپ پ±رانوں پر یا قربِ قیامت کی نشانیوں پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ گزشتہ دو سال سے امریکہ کے صدر ٹرمپ کی لن ترانیوں پر غور کرتے ہوں۔ جنہون نے پہلے یہ شور مچایا کہ جنوبی امریکہ سے پناہ گزینوں کا غول امریکہ پر حملہ آور ہونے آرہا ہے۔ جو اپنے جلو میں دہشت گرد، گھناﺅنے مجرم، اور طرح طرح کی بیماریاں بھی ساتھ لے کر آرہے ہیں۔ ایسا انہوں نے امریکی کانگریس کے حالیہ انتخابات کے وقت کیا۔ جس میں انہیں شکست کا خطرہ تھا۔ پھر انہیں شکست بھی ہوئی۔ عین اسی وقت انہوں نے اس خیالی گروہ کا مقابلہ کرنے کے لیئے ہزاروں امریکی فوجی بھی سرحد پر بھجوادیے۔ جنہیں انہیں واپس بلانا پڑا۔ لیکن انہوں نے معذرت بھی نہ کی۔
اسی طرح ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے صدارتی انتخابات میں روس سے مدد مانگی۔ یہ الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کے بڑے اداروں جیسے فیس ب±ک وغیرہ نے اقرار کیا ہے کہ روس نے ان کے ذرایع استعمال کرکے امریکی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی۔
اس کے علاوہ بھی امریکی صدر روز روز نئی غلط بیانیاں کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں اپنے حریفوں اور خود اپنے حلیفوں کے ساتھ نئے نئے قضیے کھول رہے ہیں۔ آپ ان کے طرزِ عمل کا کل یگ کی نشانیوں سے موازنہ کریں تو شاید چند لمحوں کے لیے مسکرایئں بھی اور پریشان بھی ہوں۔
امریکی صدر کے انداز کو دنیا کے دیگر رہنما بھی اپنا رہے ہیں۔ ایسا آپ پاکستان کی تحریکِ انصاف کے رہنماﺅں میں بھی پایئں گے، اور پاکستان کے ٹیلی ویڑں چینلوں پر بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والوں کی چیخ و پکار میں بھی۔ وہ اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے صرف مخالفین پر الزام تراشیوں پر ت±لے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کے ان کے لگائے گئے الزام بغیر ثبوت کے سچ مان لیئے جایئں۔ اور بغیر کسی شہادت اور منصف کے حساب پاک ہو جائے۔
ایک بہت بڑی غلط بیانی جو پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کی وہ یہ دعویٰ تھا کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی مثالی ریاست جیسا کوئی ملک بنا دیں گے۔ پھر خود ان کے اپنے وزرا مالی منفعتوں میں الجھے نظر آنے لگے۔ مدینہ کی مثالی ریاست شاید ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیئے امن کی ضمانت تھی۔ لیکن عمران خان اور ان کے ساتھی خود اپنے دوست ملک چین میں لاکھوں مسلمانوں پر زیادتیوں کو نظر انداز کرنے لگے۔
کل تو حد ہوگئی جب عمران خان نے ببانگِ دہل کہا کہ انہیں چین کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کا کوئی علم نہیں ہے۔جب کہ پاکستان اور دنیا بھر میں یہ خبریں مسلسل آتی رہی ہیں کہ چین میں مسلمانوں کو روزہ روکنے سے روکا جارہا ہے، نوجوانوں کو مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے، وغیرہ۔ اس کے علاوہ سنکیانگ کے صوبہ میں رہنے والے مسلمانوں کو جو ویغر کہلاتے ہیں، ذہنی تربیت کے کیمپوں میں بھیجا جارہا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ چین ہمارا دوست ہے اور ہماری مالی مدد کر رہا ہے۔ گویا ایک غیر مسلم ملک اگر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرے اور آپ کی مالی مدد کرے تو گویا آپ کو خرید رہا ہے۔ یہ بالکک اسی طرح کی بات ہے جیسی کے صدر ٹرمپ نے ترکی کے سعودی سفارت خانے میں اک سعودی صحافی کے بہیمانہ قتل کے بعد کی تھی۔ اس قتل کے فوراً بعد ہی عمران خان ، سعودی حکمرانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلانے اور سعودی ولی عہد کی دست بوسی کے لیئے سعودی عرب پہنچے تھے۔
اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ جھوٹ سچ میں کیسے تفریق کریں گے۔ آپ پر ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم اس کالی ےگ میں برپا ہونے والے جھوٹ سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے رہیں اور نجات کی صورتیں تلاش کرتے رہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں