Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 594

کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے

گزشتہ ستّر سال میں پاکستان کے ساتھ جو گھناو¿نا کھیل کھیلا گیا شائید تہذیب یافتہ انسانی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے البتّہ تہذیب و ترقّی سے پہلے اس طرح کی بد ترین مثالیں موجود ہیں۔یوں تو کسی ایک قوم نے دوسری قوم پر یا ایک ملک نے دوسرے ملک کے عوام پر ظلم کے پہاڑ تو توڑ ے ہیں جس میں جرمنی کے ہٹلر کے مظالم اور جاپان پر ایٹم بم ،عراق۔افغانستان ، شام اور کشمیر میں بے شمار بے گناہ افراد کی ہلاکت کی مثالیں موجود ہیں۔لیکن اپنے ہی ملک میں ملک کی جڑیں کاٹنا اس کی معیشت کو داو¿ پر لگانا اور اسے تباہی کے کنارے پر کھڑا کرنے کی کوششیں کرنا ایسی مثالیں شائید ملنا مشکل ہوں۔ اور بد قسمتی سے ہمارے ملک میں یہ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر ہوا ہے۔بھٹّو کے دور سے جو افراتفری کا عالم ہوا اس سے آج تک قوم چھٹکارہ نہ پاسکی بھٹّو کے حواریوں نے ملک کو کرپشن کی راہ پر ڈالا اور بھٹّو کو اپنی آنکھیں بند رکھنا پڑیں کیونکہ بھٹّو اپنے ان ساتھیوں کو کھونا نہیں چاہتا تھا جن کا اثر رسوخ بڑے بڑے علاقوں پر تھا ان میں بڑے بڑے وڈیرے ،جاگیردار سرمایہ دار زمیندار قسم کے لوگ تھے جو اپنے اپنے علاقوں کے بادشاہ تھے اور بھٹّوان کی طاقت پر ہی حکومت میں آیا اور حکومت کررہا تھا۔اس کے بعد بے نظیر ،نوازشریف ،زرداری کرپشن کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہ لوگ ماّ ر ،عیّاش،گھٹیا اور لٹیرے لوگ تھے جو ملک کی جڑوں میں بیٹھ گئے یہ لوگ ملک کو دلدل کی طرف لے جاتے رہے اپنی اور اپنے خاندان کی بقاءکے لئے ملک کی بقاءکو داو¿ پر لگادیا پاکستان کی معدنیات کو چور راستے بیچ بیچ کر اپنے اکاو¿نٹ میں اضافہ کرتے رہے دوسری طرف بڑے بڑے قرضے لے کر اور تھوڑا بہت کچھ شہروں میں لگاکر سڑکیں پل ٹرین بسوں میں قوم کو الجھاکر اپنی جیبیں بھرتے رہے۔اور ان کو حقائق سے کبھی باخبر نہیں رکھّا کہ ہم قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جارہے ہیں عوام یہی سمجھتی رہی کہ ہم بہت خوش حال ہیں کیونکہ آنے والے طوفان کا ان کو اندازہ نہیں تھا پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا تھا اور قوم سے ان تمام مسائل کو چھپاکر رکھّا گیا تھا۔آئی ایم ایف ،امریکہ اور دوسرے ممالک سے ہونے والی کوئی میٹنگ کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔پاکستان کی ایک بڑی آبادی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ آئی ایم ایف کس چڑیا کا نام ہے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے وطن فروش اطمینان سے اپنا کام انجام دے رہے تھے۔دوسری طرف عوام میں بھی کرپٹ پھیلانے کا عمل جاری تھا۔جب کسی ادارے کا کوئی نیا سربراہ اس ادارے کے صاف ستھرے اور کرپشن سے پاک ماحول میں آتا ہے اور وہ خود کرپٹ ہوتا ہے تو اس کے لئے ایسے ماحول میں ناجائز پیسہ بنانا ناممکن ہوجاتا ہے لہذا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے آس پاس کے لوگوں کو ناجائز کمائی کا عادی کیا جائے۔ کیونکہ جب تک ادارے کے تمام لوگ کرپٹ نہ ہوجائیں سربراہ کی دال گلنا مشکل ہے۔اسی طرح ایک دیانت دار شخض کو سربراہ بناکر ایک ایسے ادارے بھیجا جاتا ہے جہاں کا ماحول خراب ہے ہر شخص اوپر کی آمدنی کے چکّر میں رہتا ہے وہاں اس ایمان دار سربراہ کونہایت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔وہ ایک ساتھ تمام لوگوں کو نوکری سے فارغ نہیں کرسکتا وہ ادارہ ہی بند ہوجائے گا لہذا اسے بڑی مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے۔اور ایک ایک شخص پر نظر رکھنا پڑتی ہے وارننگ دینا پڑتی ہے اگر نتائج مثبت نہ ہوں تو چھٹّی کرنا پڑتی ہے لیکن اس کے لئے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ایک ایک آدمی کی جگہ نئے لانا پڑتے ہیں۔ ملک کا نظام بھی اسی طرح چلتا ہے اگر ایک صاف ستھرے ماحول میں کسی کرپٹ پارٹی کو حکومت مل جاتی ہے تو اسے بدعنوانی کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے لہذا اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ عوام میں کرپشن کو ہوا دی جائے جب لوگ خود کرپٹ ہوجائیں گے توکرپٹ لیڈر یا حکومت پر انگلی اٹھانے والا کوئی نہیں رہے گا بلکہ لوگ کہیں گے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے یعنی لوگ خود اتنے کرپٹ ہوچکے ہیں کہ اس بات پر بھی اطمینان ہے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ہمارے ملک میں بھٹّو حکومت کے بعد یہی ہوا اپنی کرپشن کو بڑھانے کے لئے عوام کو بھی کرپٹ بنانے کا عمل جاری تھا۔رشوت،چور بازاری،ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کی طرف سے مکمل آنکھیں بند رکھی گئیں۔اہم اداروں میں بدعنوا ن لوگ بھرتی کئے گئے یہ سب کچھ ایک مذموم سازش کے تحت ہوا۔بڑے بڑے اہم عہدوں پراپنے اپنے علاقوں میں بدعنوان افسر بٹھادئیے گئے تمام بدعنوانیاں دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند رکھی گئیں کسی بھی بدعنوان چور لٹیرے کو قانون کے گھیرے میں نہیں لایا گیا ان کی جگہ بے گناہ افراد کو گرفتار کیا اور سزائیں دی گئیں۔ عوام کو کرپٹ کودینے سے ان حکمرانوں کو یہ فائدہ تھا کہ عوام ان کی کرپشن کے اتنے عادی ہوجائیں کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو یہی جواب ملے کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ایسے ماحول میں عمران خان جب حکومت میں آتا ہے تو اس کے لئے ایک بڑا چیلنج سامنے کھڑا تھا تمام کرپٹ پارٹیوں کی مضبوط اپوزیشن جو کسی طور تعاون پر آمادہ نہیں تھی اس کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد جو ان پارٹیوں کے شانہ بشانہ چل رہی تھی وہ تمام جو ایسے کاروبار یا نوکریوں سے منسلک تھے جہاں ناجائز آمدنی بڑی آسانی سے حاصل ہورہی تھی۔جہاں لوگوں کے تمام مفاد صرف ان کرپٹ پارٹیوں سے وابستہ تھے ان کو تو اپنی تباہی نظر آنے لگی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے باشعور لوگ جو حقائق کو سمجھتے تھے وہ تمام نئی حکومت کے ساتھ ہیں۔عمران خان کی حکومت نے لوگوں کو تمام مسائل سے آگاہ کیا اور گزشتہ حکومت کی بد عنوانیوں سے آگاہ کیا وہ تمام باتیں جو آج تک عوام سے پوشیدہ رہیں سب منظر عام پر آگئیں آج قوم میں اتنا شعور پیدا ہوچکا ہے کہ وہ ایسے سوالات کررہے ہیں جن کے بارے میں پہلے وہ بالکل لاعلم تھے۔تمام بدعنوان لیڈر ہر روز کوئی نیا مسئلہ لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور عوام کو بہکانا شروع کردیتے ہیں ،کبھی کوئی مذہبی مسئلہ آجاتا ہے کبھی معیشت کا کبھی مہنگائی کا رونا غرض پوری کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح حکومت کو فیل کیا جائے۔اور میڈیا کا ایک بڑا کرپٹ طبقہ ان کے ساتھ ہے۔پرانے حکمرانوں کی اتنی لوٹ مار کے باوجود ابھی ملک خالی نہیں ہوا ہے۔ ابھی بھی اس ملک میں بہت کچھ موجود ہے اور اسی وجہ سے یہ بھیڑئیے ابھی تک آس پاس ٹہل رہے ہیں اور ان کی نظریں ابھی تک پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ورنہ اگر ملک میں کچھ نہیں ہوتا تو یہ لوگ نہ جانے کب کے فرار ہوچکے ہوتے دوسرے ملکوں میں ٹھکانہ بناچکے ہوتے۔ابھی تک چمٹے رہنے اور دوبارہ حکومت حاصل کرنے کی کوششوں کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اس ملک میں بہت کچھ ہے جس پر ان کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔آج گزشتہ حکومت کی بدعنوانیوں کے تمام ثبوت سامنے آرہے ہیں۔جو کہ انتہائی افسوسناک ہیں کہ کس طرح اس ملک کو لوٹا گیا لیکن حیرت ان لوگوں پر ہے جو آج بھی ان کو سپورٹ کررہے ہیں۔گزشتہ حکومتوں کا بنایا ہوا نطام انصاف اتنا بد صورت ہے کہ سمجھ نہیں آرہا کہ ان تمام ثبوت کے ہوتے ہوئے بھی کیا لوٹا ہوا مال واپس آئے گا یا ان بدعنوان لوگوں کو سزا ہوگی ۔اور ایسے نظام کو فوری طور تبدیل کرنا بھی ناممکن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں