عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 89

آخر کب تک؟

کیا عمران خان کی رہائی ممکن ہے؟ کیا پاکستان کے سب سے زیادہ مقبول لیڈر اور کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والے عمران خان کو دوسروں کی طرح سے آزادانہ طور پر اپنے انتخابی مہم کو چلانے کا موقع دیا جائے گا۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ان دنوں پاکستان کے ہر گلی کوچے میں لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک کا جو نظام اس وقت چل رہا ہے اس کے دوہرے طرز عمل کو ملکی عوام کھلی آنکھوں سے نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ اس کا مشاہدہ بھی کررہے ہیں کہ کس طرح سے پاکستان کی عدلیہ کا پیمانہ میاں نواز شریف کے ساتھ کچھ اور ہے اور عمران خان کے ساتھ کچھ اور۔۔۔؟
یہ ہی حال پاکستانی پولیس ایف آئی اے اور سول بیوروکریسی کا ہے، عمران خان کے معاملے میں تو قانونی معاملات کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور میاں صاحب کو عدالتی معاملات میں اس طرح کی سہولیات دی جارہی ہے جس کا قانون اور آئین کی کتاب میںکوئی تصور ہی نہیں، پورے کے پورے نظام کو ہی جسے پیا چاہے وہی سہاگن کے فارمولے پر چلایا جارہا ہے۔ ملکی عوام نہ تو گھاس کھاتے ہیں اور نہ ہی وہ منہ کے بجائے ناک سے یہ سب کچھ لیتے ہیں، ہر کسی کو معلوم ہے کہ یہ ملک میں اس وقت کون سا کھیل کھیلا جارہا ہے، کون انوکھا لاڈلا ہے اور کون حقیقی معنوں میں پاکستانیوں کا نجات دہندہ ہے۔
حکومتی مشینری کا یہ دوہرا طرز عمل ہی دراصل عمران خان کو کندن بنانے کا باعث بن رہا ہے، اس حکومتی کارروائی نے ہی عمران خان کا قد بہت ہی زیادہ بلند کردیا ہے اور اسے پاکستان سے باہر نکال کر ایک عالمی لیڈر بنا دیا ہے۔۔۔؟ پاکستان کا پورے کا پورا نظام اس وقت ایک شخص سے ڈرا ہوا ہے، سہما ہوا ہے، کیونکہ ان کے ساتھ کئے جانے والے ناروا سلوک اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم اور نہ انصافیوں کا کوئی جواب پاکستان کی سب سے بڑی عدلیہ کے پاس نہیں ہے۔ عمران خان کی سچائی وہ تیز روشنی بن چکی ہے جس سے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا پاکستان کے نظام کو آرپار دیکھ سکتی ہے۔ پاکستان کے پورے نظام کو عمران خان کی سچائی ان کے دلیری اور ثابت قدمی نے پوری طرح ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کوئی راتوں رات خراب نہیں ہوئی بلکہ وہ تو پچھلے 75 سالوں سے پاور کے اس گیم میں شامل رہی ہے۔ حکومتیں بنانا اسے گرانا اور اپنی انگلیوں پر اسے نچوانا ہی ان کا ہمیشہ سے محبوب مشغلہ رہا ہے لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے جتنا سورج کا روزانہ مشرق سے طلوع ہونا ہے کہ عمران خان پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جو اس وقت حکومتیں بنانے اور انہیں گرانے کی ماہر اسٹیبلشمنٹ کو تگنی کا ناچ نچوا رہے ہیں، انہوں نے اپنی ہی اسٹیبلشمنٹ کو ان کی اس قوم کے سامنے اس طرح سے ننگا کرکے رکھ دیا ہے جس قوم کا ان سے عقیدت کی حد تک محبت کا رشتہ تھا۔ اس رشتے کو خاک میں ملانے کا سہرہ بھی عمران خان کے سر جاتا ہے۔ مخالفین کا یہ کہنا بھی اتنا ہی درست ہے جتنا سورج کا روزانہ مغرب میں غروب ہو جانا ہے کہ عمران خان نے اس طرح سے وہ کام کیا ہے جو دشمن 75 برسوں میں نہ کرسکا، اب اس کا ذمہ دار کون ہے، عمران خان یا پھر ہماری اسٹیبلشمنٹ۔۔۔؟
میں پھر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکوں گا کہ اب وقت بدل چکا ہے، لوگ کنٹرول میڈیا سے بہت آگے نکل چکے ہیں، یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ایک ہی لمحے میں خبر دینا کے سات چکر لگا لیتی ہے۔ اب خبر کو روکنا اسے توڑنا اور مروڑنا ممکن نہیں رہا، اب اپنی میڈیا سے اپنی عوام کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دینا ممکن نہیں رہا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا وقار ملکی عوام میں خود ان کے اپنے فیصلوں کی وجہ سے مجروح ہو کر رہ گیا ہے۔ اب ان کی کوئی ٹکے کی عزت نہیں، اب تو رکشہ چلانے والے، چھابڑی لگانے والے، ججوں اور دوسرے لوگوں کو بلا کسی خوف و خطر کے گالیاں دیتے رہتے ہیں کیونکہ خوف کا بت ٹوٹ چکا ہے۔ اب لوگ کسی کالے قانون سے نہیں ڈرتے، گرفتاریوں اور جیلوں کا خوف تو اب پاکستانی عورتوں کے دلوں سے بھی نکل گیا ہے۔
یقین مانیے پاکستان بدل چکا ہے اور ایک انقلاب آچکا ہے، قوم بیدار ہو چکی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ تمام تر حربے استعمال کرنے کے باوجود عمران خان کی مقبولیت ختم نہ کی جاسکی اور اپنے کاغذی شیر کو وہ حقیقی شیر بنوانے میں کامیاب نہ ہو سکے، یہ ہوتا ہے گملے کے پودے اور کسی تنا آور درخت کا فرق؟ کس کی جڑیں عوام کے دلوں میں ہیں، وہ وقت اور حالات نے ثابت کردیا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کو جھوٹے مقدمات کے ذریعے پابند سلاسل کیا گیا ہے لیکن آخر کب تک؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں