وقت کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتا اور وہ ہستیاں جو ہمیں چاہتی ہیں۔ ہمیں اپنا سمجھتی ہیں، ہم سے محبت کرتی ہیں ان سے بھی وفا نہیں کرنے دیتا۔ یہ وقت ہی ہے کہ کسی سے بات کرنا ہو، کسی سے ملنا ہو، فون کرنا ہو، خیریت پوچھنی ہو، تو کہتا ہے کوئی نہیں بعد میں کر لیں گے اور یہ بعد بعض اوقات حسرت بن کر سامنے آ جاتی ہے کہ جس کے لئے تمہارے پاس وقت نہیں تھا اس کا اپنا وقت پورا ہو گیا ہے اور ہم اپنے چاہنے والوں کو انتظار انتظار ہی میں کھو دیتے ہیں۔ ہم جس دور میں کراچی میں اور کراچی کے ایک علاقے ناظم آباد میں رہ رہے تھے اس دور میں محلہ ایک گھر کی مانند ہوتا تھا، یوں تو محلے کا رتبہ بہت بڑا تھا لیکن آس پاس اور سامنے جو گھر تھے وہ ایک ہی خاندان کی طرح تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی ایک گھرانہ تھا جسے ہم اپنا گھر ہی سمجھتے تھے یہ گھرانہ ان میں سے تھا جو ادب کی مورتی بنا کر اس کی پوجا کرتے ہیں کیوں کہ ادب کا مقام بہت بلند ہے اور اس سے مستفید ہونا اور دوسروں کو مستفید کرنا ایک جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس گھرانے کے سربراہ ہم سب کے شفیق بزرگ نہ بھلائے جانے والی ہستی ایک بلندپایہ شاعر ادیب مفکر، نعت گو حضرت صبا اکبر آبادی بھی تھے جن کے پاس ادب کا خزانہ تھا اور اس خزانے سے ان کی جن اولادوں نے فیض حاصل کیا ان میں سے ایک محبت و شفقت کا پیکر مشہور افسانہ نگار، ادیب، صدا کار نا صرف پاکستان میں بلکہ پاکستان سے باہر بھی اپنے علم و ہنر سے دنیا کو روشناس کرایا۔ پاکستان اور کینیڈا کی جانی پہچانی شخصیت جناب سلطان جمیل نسیم صاحب تھے جن کے قریب جا کر ٹھنڈی چھاﺅں کا احساس ہوتا تھا۔ بے شک وہ ہمارے بڑے بھائی کی طرح تھے، ہمارا بچپن ان کے سامنے ہی گزرا پھر ہم ملکوں ملکوں پھرے اور سلطان جمیل نسیم بھائی سے ایک طویل عرصے ملاقات نا ہو سکی پھر ہم مستقل طور پر شکاگو امریکہ میں بس گئے۔
پاکستان ٹائمز کے ندیم بھائی نے ایک مرتبہ یہ نوید دی کہ وہ شکاگو میں ایک پروگرام ترتیب دے رہے ہیں جس میں کینیڈا سے معروف شعراءاور ادیب پروگرام میں شرکت کے لئے آرہے ہیں اس وقت تک مجھے ان کے ناموں کا علم نہیں تھا کہ کون کون سی شخصیات اس پروگرام کا حصہ بننے جارہی ہیں۔ پروگرام والے دن اچانک سلطان جمیل نسیم بھائی سے سامنا ہو گیا، ایک لمحے کو وہ چونکے اور پھر فوراً ہی مجھے گلے لگا لیا۔ میں حیران رہ گیا اتنے طویل عرصے کے بعد ملاقات اور انہوں نے مجھے پہچان لیا پھر انہوں نے کینیڈا سے آئے ہوئے اپنے ساتھیوں سے میرا تعارف چھوٹے بھائی کی حیثیت سے کرایا۔ ان کی محبت اور شفقت سے تو ہم بچپن سے ہی روشنا تھے اور وہ اب بھی بالکل ایسے ہی تھے۔ ان کی مسکراہٹ ان کی محبت اور باتوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ میں جس زمانے میں شکاگو میں ریڈیو پروگرام کرتا تھا ایک مرتبہ فون پر سلطان جمیل نسیم بھائی کو کینیڈا سے اور جانب قمر علی عباسی کو نیویارک سے تاجدار عادل کو کراچی سے فون پر لیا۔ بہت اچھی گفتگو رہی، اس کے بعد کئی مرتبہ فون پر بات چیت ہوئی، اکثر میرے کالمز پر تبصرہ کیا کرتے اور میری ہمت بڑھاتے تھے۔ بعض اوقات پرلطف انداز میں تنقید بھی ہو جاتی تھی۔ میں کئی مرتبہ کہا آپ شکاگو کب آرہے ہیں اور ہر مرتبہ کہتے تھے بس اس مرتبہ صرف تمہارے لئے اور تمہارے پاس ہی آﺅں گا پھر مجھے کینیڈا آنے کا کہا کرتے تھے لیکن ان کا شکاگو آنا اور ہمارا کینیڈا جانا اس ہی ظالم وقت نے نہیں ہونے دیا۔ کچھ ہماری مصروفیات اور کچھ ان کی مصروفیات نے ملاقات کے مواقع پیدا نہیں ہونے دیئے پھر کچھ ایسے حالات ہوئے کہ مجھے شکاگو چھوڑ کر نارتھ کیرولائنا آنا پڑا اور بہت سارے لوگوں سے رابطے میں کمی آگئی۔ سلطان جمیل بھائی سے بھی رابطہ نا ہو سکا البتہ ان کے چھوٹے بھائی شاید سلمان سے جو کہ کینیڈا میں ہی ہیں بات ہو جاتی تھی۔ تاجدار بھائی سے سوشل میڈیا کے ذریعے اور کبھی کبھار فون پربات ہو جاتی تھی، کئی مرتبہ خیال آیا کہ سلطان جمیل بھائی سے رابطہ کروں لیکن ظالم وقت نے موقعہ ہی نہیں دیا اور آج یہ روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ سلطان جمیل نسیم بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
چند نگینوں میں سے ایک اور نگینہ جدا ہو گیا۔ سلطان جمیل نسیم بھائی 14 اگست 1935ءمیں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد خاندان کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اور حیدرآباد سندھ میں قیام کیا بعد ازاں کراچی منتقل ہو گئے۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران حیدرآباد ریڈیو سے منسلک رہے۔ پھر ریڈیو پاکستان کراچی سے تین سال ڈرامائی فیچر حامد منزل کے نام سے تحریر کیا۔ کئی افسانوی مجموعے کے مصنف تھے، دو سو سے زائد افسانے تحریر کئے۔ سلطان جمیل نسیم بھائی حضرت صبا اکبر آبادی کے فرزند پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ڈائریکٹر تاجدار عادل اور مصنف کالم نگار سلمان شاہد مقیم کینیڈا کے بڑے بھائی تھے۔
ان کے جملے ان کی باتیں ابھی تک کانوں میں گونج رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین
467