عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 716

اب مداخلت ناگزیر ہوتی جارہی ہے

ریاست کو تیزی کے ساتھ انارکی کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ ایسے شخص کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا گیا ہے جس کی منزل ہی ایکسڈنٹ ہے وہ جس گاڑی کو چلا رہا ہے اس کا مقصد ہی اسے کسی دیوار پر پہاڑ سے ٹکرانا ہے۔ اسی طرح کی تمہید موجودہ سیاسی صورتحال کی بن رہی ہے، پارلیمنٹ کو بطور ادارہ ایک دوسرے ادارے عدلیہ سے متصادم کروانے کی سازش کی جارہی ہے۔ عدلیہ کے ایسے امور کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی تیاری کی جارہی ہے جس کی اجازت ملک کا آئین نہیں دے رہا۔ اس طرح سے کرکے خود آئین کی پامالی کا ناٹک اس چار دیواری میں رچایا جارہا ہے جہاں سے آئین جنم لیتا ہے۔ غرض ایک اس طرح کا تماشہ لگانے کی تگ و دو کی جارہی ہے جس کی نظیر پوری جمہوری تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ملک اور جمہوریت کو داﺅ پر لگایا جارہا ہے، محض اس لیے کہ ایک شاہی خاندان کی کھربوں کی چوری پکڑی گئی اور ان کے پاس اپنی صفائی میں بولنے کے لئے سوائے ”مجھے کیوں نکالا“ کے اور کچھ نہیں۔ ایک خاندان کو جیل جانے سے بچانے کے لئے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو ہتھیار کے طور پر اپنی ہی اعلیٰ عدلیہ کے خلاف استعمال کرنے کے حربے اختیار کیے جارہے ہیں۔ ڈوب کے مرنے کا مقام ہے اس طرح کی جمہوریت اور پارلیمنٹ پر جہاں رولز آف لاءکے راستے میں خود جمہوریت روڑے اٹکائے، لعنت ہے اس طرح کے اراکین اسمبلی پر۔ مجھے اس موقع پر بانی چین ماوزے تنگ کا یہ قول شدت کے ساتھ یاد آرہا ہے کہ جب ان سے کسی نے چین کی ترقی کرنے کی وجہ معلوم کی تو انہوں نے بہت ہی سادا سا جواب دیا کہ ”ہم نے ان پڑھ لوگوں سے ووٹ کا حق چھین لیا تھا“۔ یہ بات اتنی ہی درست اور حقیقت پر مبنی ہے جتنا کے سورج کا روزانہ مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہونا ہے۔ پاکستان بھی اسی لعنت کا شکار ہے جس کا فائدہ وہ اشرافیہ اٹھا رہا ہے جو قومی خزانہ لوٹنے کے بعد بھی ججوں کے زبانی خود کو چور اور ڈاکو کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ وہ خود کو بے گناہ اور ہیرو ثابت کرنے کے لئے اسی طرح کے ان پڑھ اور سادہ لوح لوگوں کی عدالت میں جانے کی دھمکی دیتے ہیں اور عدالتی معاملات کے فیصلے ایسے لوگوں سے کرواتے ہیں جو اپنے گھروں سے فاقوں اور مشکلات کے ڈیرے نہیں ختم کراسکتے۔ میں ان ہی سطور میں پہلے ہی بار بار یہ لکھ چکا ہوں کہ میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے بڑے رسک بن گئے ہیں وہ ”نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے“ کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔ وہ مائنس نواز شریف پر مسلم لیگ ن کیا پاکستان کو بھی نہیں مانتے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی بقاءمیں پورے ملک کو تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ عدالت کے نا اہل شخض کے پارٹی صدارت کرنے کا فیصلہ آنا تو ابھی باقی ہے لیکن میاں صاحب نے پہلے سے ہی تو ریمورٹ کنٹرول وزیر اعظم خاقان عباسی اور پوری کابینہ کو عدلیہ سے پارلیمنٹ میں لڑنے پر لگا دیا ہے اس طرح سے میاں صاحب اعلیٰ عدلیہ کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ تم چاہے کچھ بھی کرلو ہوگا وہی جو وہ چاہیں گے۔ پوری دنیا خاص طور سے ملک دشمنوں کی نظریں اس وقت پاکستان پر لیگ ہوئی ہیں کہ اس ملک میں کیا ہونے جارہا ہے؟ یہاں کس طرح کا نظام رائج ہے؟ کوئی ولز آف لاءہے کہ نہیں؟ یا پھر ملک میں جنگل کا قانون رائج ہے ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ میرے خیال میں ملک اس وقت ایک اس طرح کی نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں مداخلت ناگزیر ہوچکی ہے اب مداخلت کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح کی مداخلت؟ کیونکہ سیاسی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی باغی ٹیم کی حکمت عملی ہے کہ اس طرح کی بیان بازی اور اسمبلی کی کارروائی کی جائے گی جس سے عدلیہ مشتعل ہو کہ توہین عدالت سمیت دوسرے الزامات کے تحت نا اہل وزیر اعظم ان کی صاحبزادی اور دوسرے رفقاءکے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائے جس کا ادراک خود عدلیہ کو بھی ہے اسی وجہ سے وہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن اب معاملہ صبر و ضبط کے حدود سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اب مداخلت کے سوا کوئی چارہ ہی نہ رہا، میرے خیال میں میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی تقاریر اور میڈیا سے گفتگو پر پابندی لگا دینی چاہئے اور اسمبلی میں عدلیہ کے خلاف کسی بھی طرح کی قرارداد لانے یا اس پر ہونے والی بحث پر پابندی لگا دی جائے۔ اس موجودہ صورتحال میں ملک کے سلامتی کے اداروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آرمی چیف قمر باجوہ اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے ملک کے قانون اور آئین کا ساتھ دیں۔ ملک میں رولز آف لاءکے اطلاق کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور سپریم کورٹ سمیت ملک کے دوسری عدالتوں کی جانب سے جاری کئے جانے والے وارنٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ خاص طور سے نیب کی عدالتوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کریں۔ عدالتوں کی جانب سے جن سفید پوشوں کے نام ایگزسٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے اسے بھی یقینی بنانے میں کردار ادا کریں۔ ملکی سلامتی کے اداروں کے سربراہوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس طرح کی انارکیوں میں کس طرح ملک دشمن قوتیں سیاستدانوں کو استعمال کرتی ہیں اس وجہ سے انہیں چاہئے کہ وہ اس صورتحال کو سنجیدگی سے لیں اور ملک کی سلامتی سے کھلواڑ کرنے والوں سے سختی سے نمٹیں اس لیے کہ یہ ملک چند خاندانوں یا سیاستدانوں کا نہیں بلکہ 22 کروڑ لوگوں کا ہے جن کا مطالبہ ہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں