بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 762

احساس مر نہ جائے تو انسان کے لئے…کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

ایک ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان آج نفرتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا احساس، بھائی چارہ اور ایثار کہاں مر گیا ہے اور ہم بحیثیت پاکستانی ایک ایسی راہ پر گامزن ہو چکے ہیں جس کا انجام تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ علم والے ہوں یا جاہل سب ایک ہی صف میں کھڑے دکھائے دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ عیدالفطر کے موقع پر پی آئی اے کے طیارے پی کے 8303 کے حادثہ نے عید کے تمام رنگ ماند کردیئے۔ عرصہ دراز کے لاک ڈاﺅن کے بعد رمضان المبارک کی برکتوں سے مستفید ہوتے ہی طیارے کے حادثہ نے پاکستانی عوام کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ سو کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے۔ کئی گھروں میں 29 رمضان کو صف ماتم بچھ گیا۔ وہ جو اپنے پیاروں سے عید ملنے اپنے گھروں کو واپس آرہے تھے۔ یہ ان کا آخری سفر ثابت ہوا۔ زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ مگر دکھ اس بات کا ہے کہ ان مرنے والے ہم وطنوں کے ساتھ ہمارے ہی ہم وطنوں نے کیا سلوک کیا؟ عین اس وقت جب ان گھروں میں صف ماتم بچھی تھی۔ پاکستان کے ٹی وی چینل عید شوز اور ناچ گانے میں مشغول تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام عید شوز کو کینسل کردیا جاتا اور ان تمام فیملیز کے ساتھ اظہار یکجہتی اور بھائی چارہ کی مثال قائم کی جاتی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ نہ ہی حکومت کے کسی ذمہ دار نے اس حادثہ پر اظہار افسوس کیا۔ وزیر اعظم عمران خان، صدر پاکستان اور ان کے دیگر رفقائے کار نہ جانے ستو پی کر کہاں جا سوئے ہیں۔ یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ بحیثیت قوم ہم آج کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے بے حسی کی وہ چادر اوڑھ لی ہے کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا۔ ہم بھول بیٹھے ہیں کہ یہ حادثہ کسی روز ہمارے پیاروں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم با آسانی کہہ دیتے ہیں کہ موت ایک دن مقرر ہے سو حادثہ ہو گیا مگر ہم اس قسم کے واقعات کی سنجیدہ طریقہ سے نہ تحقیقات کرتے ہیں نہ ہی ان کے اسباب پر غور کرتے ہیں۔ تمام اداروں میں اقربا پروری، سفارش اور غیر معیاری افراد کی بھرتیوں نے نحوست کی ایک ایسی چادر میں قوم کو لپیٹ کر رکھ دیا ہے کہ ہم انسانوں کے بجائے قومیتوں کی بنیادوں پر سوچنے لگے ہیں۔ یوں ہمارا احساس مر چکا ہے۔ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو بھلا دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ طیارے کے پرزہ جات بلیک بکس کو غائب کرکے لاہور بھجوا دیا گیا ہے جب کہ بلیک باکس کا حصہ وائس ریکارڈر ملبے سے مل گیا ہے جسے ڈی کوڈ کرنے کے لئے فرانس بھیجا جائے گا، تاہم اپنی مرضی کی انکوائری ٹیم بنا دی گئی ہے۔ یعنی ہم بھول گئے ہیں کہ ہم دنیا کی آنکھوں میں تو دھول جھونک سکتے ہیں مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے غیض و غضب سے نہیں بچ سکتے۔ اگر ہماری غلطی سے دوسروں کے خاندان ماتم کناں ہیں تو یاد رکھیئے کل آپ کے گھر اور آپ کی اولاد بھی اس دنیا مںی حادثوں کا شکار ہوگی۔ آپ کتنے ہی طاقتور ہوں مگر اللہ کی قدرت نے جس روز آپ کی گردن دبوچ لی آپ کو کہیں ٹھکانہ نہیں ملے گا۔
پی آئی اے جس کا معیار یہ تھا کہ کراچی میں دنیا بھر کے پائلٹس اور عملہ کو تربیت دی جاتی تھی، پاکستان فلائنگ ٹریننگ سینٹر کے ٹرینڈ شدہ پائلٹ آج متحدہ عرب امرات اور دیگر ممالک کی ایئر لائنز کامیابی سے چلا رہے ہیں مگر ہم نے سفارش اور اقربا پروری، زبان کی بنیادوں پر بھرتیاں کرکے اپنے معیار کو برباد کردیا۔ یوں آج پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن دنیا بھر میں موضوع بحث ہے اور آنے والا وقت ہمارے فلیگ کیریئر کے لئے وہ مشکلات پیدا کرے گا جس کا ہمیں اندازہ نہیں۔ گزشتہ 54 سالوں میں تقریباً 17 جہاز گر چکے ہیں مگر کسی ایک کی انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آئی اور اقربا پروری کا اور بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی اخلاقی قدریں تباہ ہو چکی ہیں۔ یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم مردہ ہوچکے ہیں۔ ہمارا حساس مر چکا ہے، ہم حیلے بہانوں سے اپنی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال کر فائل داخل دفتر تو کر دیتے ہیں مگر یہ بھول گئے ہیں کہ اللہ کے یہاں فائل اس وقت تک بند نہیں ہوتی جب تک خون کا بدلہ خون نہ ہو جائے۔ آپ پاکستان میں بددیانتی سے ضرور بچ سکتے ہیں مگر اللہ کے قانون کی پکڑ سے اس وقت تک نہیں بچ سکتے جب تک اپنا حساب چکتہ نہ کردیں۔ آخری سانس اس وقت نہیں نکلے کی جب تک ظلم کا حساب پورا نہیں ہو گا۔ یہ یاد رکھئیے گا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہاں انصاف ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں