عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 82

اسرائیل فلسطین تنازعہ؟

ہندو پاک کے دو قومی نظریہ کے تحت معرض وجود میں لائے جانے والے دو ملکوں بھارت اور پاکستان کی طرح اب مغربی طاقتیں اسرائیل اور فلسطین کے دو ریاستی نظریہ کو بھی اس وقت بری طرح سے سبوتاژ کرنے پر لگے ہوئے ہیں، وہ صرف اور صرف ایک ہی ریاست یعنی گریٹر اسرائیل کے لئے مشرق وسطیٰ میں راہیں ہموار کررہے ہیں، اسی طرح سے ان کے اس سے ملتے جلتے اقدامات جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی پاور ممالک انڈیا اور پاکستان کو یکجا کرنے یعنی ایک ہی پیج پر لانے کے منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف ان کے اس پروجیکٹ کے سب سے بڑے کردار ہیں۔ اسی مقصد کے لئے ان کے ایک ہزار گناہ معاف کرکے انہیں پاکستان کا نجات دھندہ بنا کر بھجوا دیا گیا ہے اور پاکستان کی پوری سرکاری مشینری کی کنجیاں ان کے ہاتھوں میں تھما دی گئی جس کے بعد سے وہ اپنی خواہشات کی راہ میں حائل تمام بند دروازے کھولتے چلے جارہے ہیں اور جسے چاہے وہ مقفل کرنے جارہے ہیں۔ نواز شریف کو ایک ڈرامائی الیکشن پراسسز کے ذریعے پاکستان کا وزیر اعظم بنوا کر پاکستان کو ایک آزاد ریاست ہونے کے باوجود انڈیا کی بالادستی میں دینے کے لئے راہیں ہموار کرنا ہے۔ دوسرے معنوں میں مغربی طاقتیں پاکستان کو ایک طرح سے انڈیا کا ایک صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ کام گرچہ بہت مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن بھی ہے لیکن پاکستان کی معاشی صورتحال جس طرح کی ان دشمنوں نے بنوالی ہے۔ اس کے بعد اب پاکستان کا کسی بھی معاملے میں بہت زیادہ ڈٹ جانے یا پھر مخالفت کرنے کی کوئی آپشن ہی نہیں ہے تاوقت یہ کہ کوئی بہت بڑا سانحہ یا المیہ یا پھر کوئی انقلاب آجائے، اس صورت میں تو دشمنوں کا یہ پراجیکٹ ناکام ہو سکتا ہے ورنہ اس پراجیکٹ کو فائنل کردیا گیا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے دو ریاستی فارمولے کی طرح سے ہندو پاک کے دو قومی نظریے کو ایک ساتھ ہی دفن کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہے۔ فلسطین میں غزا کی پٹی پر جس طرح کی گولہ باری کی جارہی ہے اس سے اس خوفناک منصوبے کو عجلت کے ساتھ مکمل کرنے کے خدوخال صاف طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دنیا بھر کے عوام دو ریاستی فارمولے کا مطالبہ کررہے ہیں کہ جو وعدہ یاسر عرفات سے فلسطین اور اسرائیل کی جداگانہ ریاستوں کے بنوائے جانے کا تحریری وعدہ کیا گیا تھا اس پر تاحال عمل درآمد نہیں کروایا جا سکا اور اب جس طرح سے فلسطینیوں پر مسلط کردہ اس یکطرفہ جنگ کے نتیجے میں ان کی نسل کشی کی جارہی ہے اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی صورت میں فلسطینیوں کو ان کی ریاست بنانے کا موقع نہیں دے گا بلکہ ان کے خطے سے انہیں بے دخل کرکے اس پر بھی اسرائیل قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جس طرح سے امریکہ اور برطانیہ کھل کر اسرائیل کی مدد کررہا ہے خود برطانوی وزیر اعظم جدید ہتھیاروں سے بھرے طیارے کو لے کر اسرائیل پہنچے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی اور دو قومی ریاستی فارمولے کو سبوتاژ کرنے میں اسرائیل کی مکمل مدد کررہے ہیں۔ اس وجہ سے وہ غزا میں جنگ بندی کروانے کے لئے اسرائیل پر کسی طرح کا کوئی دباﺅ بھی نہیں ڈال رہے ہیں بلکہ خود امریکی وزیر خارجہ کا تو یہ کہنا ہے کہ جنگ بندی سے حماس کو فائدہ ہوگا۔ اس لئے اسرائیل کی یہ یکطرفہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حماس کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتیں جس طرح سے اسرائیل کی کھل کر مدد کررہی ہے اسی طرح سے ان دونوں ملکوں کے لاکھوں عوام روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کرکے اپنے ملکوں کی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کا اعلان کررہے ہیں ان کے ان احتجاجی جلوسوں نے کفار کا اصل چہرہ اقوام عالم پر عیاں کرکے رکھ دیا ہے اس وقت امریکہ کی مشرقی وسطیٰ پر خارجہ پالیسی پوری طرح سے ناکام دکھائی دے رہی ہے اور اسرائیل فلسطین تنازعہ میں دنیا پیوٹن کے بیانات اور ان کے خیالات کو اہمیت دے رہی ہے اور جوبائیڈن انتظامیہ اس سارے معاملے میں برطانوی حکومت کی طرح سے ایک فریق بن گئی ہے اور عالم اسلام بھی ان کا اصل چہرہ اس وقت دیکھ چکی ہے اس لئے اس وقت امت مسلمہ کو اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کفار کی مصنوعات کا سوشل بائیکاٹ بھی انہیں سبق سکھانے کے لئے بے حد ضروری ہے، اسی میں امت مسلمہ کی سلامتی اور ان کی فلاح مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں