اسلامک کمیونٹی سینٹر ڈسپلینیز میں ہونے والا واقعہ قابل مذمت ہے 148

اسلامک کمیونٹی سینٹر ڈسپلینیز میں ہونے والا واقعہ قابل مذمت ہے

(رپورٹ: افضل سوداگر/کامران انیس) چند روز قبل ڈسپلینیز کی مسجد میں ہونے والے واقعہ نے یہ ثابت کردیا کہ ہماری نماز، روزہ اور نیک عمل اپنی جگہ مگر ہم خود پر ذرا سی بھی تنقید برداشت نہیں کرسکتے۔ پوری دنیا غزہ اور فلسطین کے معاملہ پر نوحہ کناں ہے مگر ہم مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق تراویح کے بعد کچھ افراد نے ثواب کی نیت سے نمازیوں میں ڈونٹ تقسیم کرنے شروع کئے تو ایک مسلمان جو کہ فلسطین اور غزہ کے حالات پر غمزدہ تھا۔ سوال اٹھایا کہ ایک جانب خواتین اور بچے بھوک اور پیاس کے سبب بھوکے مر رہے ہیں اور ہم یہاں پر ڈونٹ تقسیم کررہے ہیں۔ اعتراض کرنے والا شاید غصہ پر قابو نہ رکھ سکا اور اس کی لہجہ کی سختی نے ڈونٹ بانٹنے والوں کو مشتعل کردیا۔ کاش کے ڈونٹ بانٹنے والے اس شخص کے جذبات اور احساسات کا احترام کرلیتے اور درگزر فرماتے مگر اس کے برعکس تراویح اور رمضان کے مقدس راتوں میں رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والے یہ بھول گئے کہ ہماری نبی نے خود پر کوڑا پھینکنے والی عورت کی بھی عیادت کی تھی۔ ہمارے نبی نے فتح مکمہ کے وقت ان تمام غیر مسلموں کو معاف کردیا تھا جنہوں نے انہیں مکہ بدر کیا اور آپ کی جان کے پیاسے رہے۔ کیا ہم نے اپنے اس عمل کو کرنے سے پہلے یہ سوچا کہ آج کا مسلمان کن مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور کیا ان کے اس عمل سے ایسے لوگ کس قدر خوش ہوں گے جو مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے شخص کو ڈونٹ تقسیم کرنے والوں نے اس قدر بے دردی سے مارا اور اس قدر مارا کہ وہ لہولہان ہوگیا مگر افسوس کہ مسجد انتظامیہ یہ سب کچھ ہوتے کیوں دیکھتی رہی اور فوری طور پر اس معاملہ کو روکا کیوں نہ جاسکا۔ اعتراض والے نمازی کو اس قدر بیدردی سے پیٹنے کیوں دیا گیا کہ وہ ادھ موا ہو کر رہ گیا۔ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ اعتراض کرنا ہر انسان کا حق ہے۔ یہ سب مسلمان ہیں۔ خط کار ہیں۔ مگر اللہ سے اپنے گناہوں پر رو رو کر درگزر کرنے کی فریاد کرنے والے ضرور ہیں مگر دوسروں کی خطاﺅں کو معاف کرنے کا حوصلہ ہم میں نہیں۔ اس معاملہ کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم مسجد انتظامی بورڈ سے استدعا کرتے ہیں کہ ایسے معاملات کی تحقیقات کی جائیں اور مارنے والے افراد اس شخص سے معافی مانگیں جسے بے دردی سے مارا پیٹا گیا ہے۔ یقیناً آج کے دور میں ہر شخص پریشان ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان حالات کے نتیجہ میں غصہ پر قابو نہ رکھ سکا تو اسے ایسی سنگین سزا دینے والے بے رحم لوگ کسی رحم کے مستحق نہیں۔ مسجد بورڈ کو چاہئے کہ ان افراد کو سامنے لایا جائے اور باہمی جھگڑے والوں میں صلح صفائی کرائی جائے اور مسجد میں کھانے پینے کا سلسلہ ختم کیا جائے کہ یہی اس جھگڑے کا سبب بنا۔ مسجد کی سیکیورٹی میں اضافہ کیا جائے تاکہ کوئی شرپسند شخص اس ماہ مقدس یا پھر عام دنوں میں بھی مسجد کے تقدس کو پامال نہ کرسکے۔ ہمارے نمائندے نے مسجد انتظامیہ کے نمبر پر کال کرکے مسجد بورڈ کا موقف لینے کی کوشش کی۔ فرید نامی شخص نے فون اٹھایا اور کہا کہ مجھے انتظامیہ کے صدر عماد صاحب سے بات کرنا چاہئے اور وعدہ کیا کہ وہ نمبر بھجوا رہے ہیں مگر بعدازاں نہ عماد صاحب کا نمبر بھجوایا گیا اور نہ ہی دوبارہ فون اٹینڈ کیا گیا چنانچہ یہ خبر انتظامیہ کا موقف لئے بغیر شائع کی جارہی ہے۔ انتظامیہ کے اس رویہ سے غیر ذمہ داری کا تاثر ابھرتا ہے اور شاید یہی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے جس کے سبب مسجد میں آئے دن جھگڑے اور فساد ہوتے رہتے ہیں یا پھر اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں