عمران خان توجہ فرمائیے! 381

اسلام آباد کی آل پارٹیز کانفرنس کا احوال!

20 ستمبر کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں جو کہ پیپلزپارٹی نے بلائی تھی۔ اس میں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے علاوہ چھوٹی پارٹیوں نے شرکت کی۔ طویل تقاریر کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا وہ سارے کا سارا حکومت نے مسترد کردیا۔ اور مسترد کیا بھی جانا چاہئے تھا۔ کیوں کہ اس میں ان چلے ہوئے کارتوس نے شرکت کی جو اپنی سیاسی زندگی کا بالکل آخری اننگز کھیل رہے ہیں۔ جن میں نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، یوسف گیلانی، محمود اچکزئی، شیرپاﺅ، ساجد میر وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ اس ہارے ہوئے جواریوں کے ٹولے نے بھانت بھانت کی بولی بولی جس میں رتی برابر بھی وزن نہیں تھا۔ یہ ان مخالف سمتوں میں سفر کرنے والی جماعتوں کا ناکام اکٹھ تھا جس کا مظاہرہ یہ پہلے بھی کرتے رہے ہیں۔ ان سب کا ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ کسی طرح زرداری اور شریف فیملی کے خلاف مقدمات میں ان کی خلاصی ہو جائے جو کہ عمران خان کی کتاب میں ناممکن ہے اس بات کا واضح اظہار وزیر اعظم مشترکہ اجلاس کے بعد تقریر کرتے ہوئے کرچکے ہیں۔ عمران خان کی کہئی ہوئی ایک ایک بات سچ ثابت ہو رہی ہے کہ کرپشن کا گھیرا تنگ ہونے کے بعد یہ سب اکٹھے ہو جائیں گے۔ اے پی سی، مارچ، احتجاج، دھرنا جو مرضی کر لیں کرپشن پر ان کو این آر او نہیں ملے گا۔ جہاں تک قانون عمران خان حکومت کو اجازت دے رہا ہے وہ اس کا پیچھا کررہا ہے، کہیں اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ وگرنہ وہ تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہتا ہے۔ جو تاریخ میں صدیوں یاد رکھا جائے۔ تمام کرپٹ سیاسی مافیا کے اکٹھے ہونے کے بعد عمران خان کی تقریریں یاد آرہی ہیں۔ جس میں اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کو رلائے گا اور آج تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ ان سب کی چیخیں آسمان کی چھتوں تک پہنچ رہی ہیں۔ اس روئے زمین کی ہوائیں، فضائیں اور چپہ چپہ اس بات کا گواہ ہے کہ عمران خان سچ کہتا تھا۔
عوام الناس کو بے وقوف سمجھنا اور بنانا ان خاندانوں کا پرانا وطیرہ رہا ہے اور ایسے بے شمار لوگ ہیں جو ان کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔ مولانا فضل الرحمان کا دکھ یہ ہے کہ اس کے منہ کو لگا ہوا حلوہ چھین لیا گیا ہے۔ وہ اتنا بے وقت کبھی نہیں ہوا تھا جتنا عمران خان نے اسے کردیا ہے۔ عمران خان کو اللہ نے عزت بخشی اور مملکت خداداد کی باگ ڈور ان پیسہ ور لوگوں سے چھین کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔
وتعزمن تشاءوتزل ومن تشاءہو بید کل خیر
آج کی APC میں دو بہروپئیے کھل کر عوام کے سامنے آئے۔ جو کہ عدالتوں کے ساتھ ڈھونگ رچا کر جیلوں میں ہونے کی بجائے اپنے اربوں روپوں کے گھروں سے خطاب کررہے تھے۔ جناب آصف زرداری (مسٹر ٹین پرسنٹ) اور بقول سپریم کورٹ سسیلین مافیا کے سربراہ محترم نواز شریف۔ آصف زرداری کی باتیں ساری کی ساری بے تکی تھیں، وہی پرانا تکبر بھرا لہجہ جو کئی سالوں سے دہرا رہا ہے جس میں کوئی جان نہیں ہے، زرداری یہ کہتا ہے کہ ہم نے پاکستان کو بچانا ہے، تو یقین کریں بچہ بچہ اس بات پر ٹھٹھہ لگاتا ہے۔ اس پلید انسان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے ہوتے۔ اس کے مکروہ چہرے سے شیطانیت اور روعنیت جھانک رہی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کو بات کرتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔ یہ بے غیرتوں کا امام ہے۔
آج قائد محترم نواز شریف نے 54 منٹ تقریر کی اور ایک جملہ بھی اپنے پاس سے نہیں بولا۔ تمام روایتی لکھا ہوا دھکی آمیز خطاب تھا۔ جو اس کا بیانیہ پہلے تھا یہی آج ہے کہ ”ووٹ کو عزت دو“ جب کہ ان لعنتی کرداروں کو یہ نہیں پتہ کہ ”ووٹر کو عزت“ ان کا باپ دے گا۔ جن کے وسیلے سے یہ حکومتیں کرتے ہیں اور پر انہی ووٹروں کو جوتے مارتے ہیں۔ حکومت کے وسائل کو باپ کا مل سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ نواز شریف نے آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو اعلان جنگ کیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔
(۱)۔ نواز شریف نے الزام لگایا ہے کہ پچھلے ستر سالوں سے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فوج کروا رہی ہے۔
(۲)۔ انتخابات سے پہلے ہی فیصلہ ہو جاتا ہے کہ اقتدار میں کس کو لانا ہے!
(۳)۔ پہلے تو کوشش کی جاتی ہے کہ عوامی مینڈیٹ چوری کیا جائے اگر کوئی حکومت بن بھی جاتی ہے تو پھر اس حکومت کو بے اثر کیا جاتا ہے اور فارغ کردیا جاتا ہے۔ اس پر بھی وہ فوج کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
(۴)۔ فوج کسی وزیر اعظم کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دیتی اور وزیر اعظموں کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
(۵)۔ قومی مفاد کے خلاف پاکستان میں اگر کوئی سرگرمی ہو رہی تو اس کی نشاندہی کی جائے تو نشاندہی کرنے والے کو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ آج نواز شریف نے ڈان لیکس کا جرم بھی قبول کرلیا۔
(۶)۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں متوازی حکومت چلتی رہتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ چلتی ہے۔ اب معاملہ آگے بڑھ گیا ہے اب وہ کہتے ہیں State above the state چل رہی ہے۔
(۷)۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کے اندر حالات بہت خراب ہیں اور اس کی ذمہ دار فوج ہے۔
(۸)۔ خواتین صحافیوں کو ایجنسیز کی جانب سے اٹھایا جارہا ہے اور ان پر تشدد کیا جارہا ہے۔ یہ الزام بہت گھناﺅنا اور سنگین ہے جو نواز شریف نے لگایا ہے۔
(۹)۔ جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے بالکل ٹھیک بات کی تھی اور ان کو غلط طور پر فارغ کیا گیا تھا۔ شوکت صدیقی نے بھی فوج کے کردار پر بات کی تھی۔
(۰۱)۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کے حوالے سے نواز شریف نے کہا کہ ان کے خلاف غلط اقدامات کئے جارہے ہیں جب کہ قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل آباد دھرنے کی سماعت کے دوران آئی ایس آئی پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس میں ملوث ہے۔
(۱۱)۔ آخری الزام جو فوج کے خلاف لگایا گیا وہ یہ ہے کہ فوج کی مداخلت سے پاکستان کے اندر تباہی اور بربادی آچکی ہے۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ اگر فوج کا یہی کردار رہا تو پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے۔
نواز شریف نے فوج پر جو الزامات لگائے اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے دشمنوں کو پیغام دیا جائے اور عوام کو اشتعال دلایا جائے۔ حالانکہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ہ فوج کی نرسری سے پیدا ہونے والا یہ لیڈر کس طرح اسٹیبلشمنٹ کو استعمال کرکے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا۔ نواز شریف کا سارا بیانیہ فوج کے خلاف تھا اور اس کی زبان زہر اگل رہی تھی۔
حقیقت ہے کہ اگر افواج پاکستان جیسا ادارہ موجود نہ ہو تو یہ دو ٹکے کے سیاست دان اب تک پاکستان کا سودہ کرکے بیرون ملک اپنے غیر ملکی آقاﺅں کی گود میں بیٹھ چکے ہوتے۔ عمران خان سے پہلے وزرائے اعظم جن میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سرفہرست ہیں، نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس کا ازالہ اب تک نہیں ہو پا رہا۔ 19 ویں ترمیم کے بعد حکومت کو کھل کر کھیلنا ہوگا اور عوام کی امنگوں کے مطابق ابلیس کے چیلوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں