بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 262

اسٹیبلشمنٹ زندہ باد

جنرل فیض اور اجیت ڈوول نے خفیہ ملاقات کی جس کے بعد ہمارے محترم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 30 کے لگ بھگ صحافیوں سے ملاقات کرکے بھارت سے پاکستان کے تعلقات کی اہمیت اور افادیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس توقع کا بھی برملا اظہار کیا کہ میڈیا کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرکے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنا چاہئے کہ بھارت سے تعلقات استوار ہونے سے ہماری معیشت کو بھی بہت فائدہ ہو گا۔ کس قدر بڑی تبدلی ہے، کیسا ”U“ ٹرن ہے جو ہماری فوج کے سربراہ نے لیا ہے۔ اسے خوش آئند یوں سمجھنا چاہئے کہ ہمیں بہرحال اپنے پڑوسی ممالک سے معاشی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینا ضروری ہے مگر حیرت اس بات کی ہے کہ جب یہی کام ہمارے سابق وزیر اعظم نواز شریف کررہے تھے تو اُن پر سخت تنقید کی گئی تھی اور انہیں غدار وطن اور مودی کا یار گردانا گیا تھا۔ خان غفار خان نے بھارت سے دوستی کے عوض اپنے گلے میں غداری کا طوق ڈال لیا اور آج تک ان کی پارٹی علیحدگی پسند پارٹی کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔
کراچی اور سندھ سے پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کا ور توڑنے کے لئے کراچی اور شہری سندھ کے سروں پر الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کو مسلط کرنے والے کون تھے؟ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قوم کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ وہ ماضی کے واقعات سے تانے بانے ملانے میں ناکام ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر کچھ عرصہ میں ایک نیا نعرہ، نیا پلان اور نیا بھاشن سامنے آتا ہے اور ہمارا میڈیا تنقید اور حقائق پر بات کرنے کے بجائے ”جی حضوری“ کرنے پر مجبور ہے اور اب تو اُن پر بے حرمتی کا چارج بھی لگ سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں ہمارے پارلیمنٹ نے بل منظور کرلیا ہے کہ ملکی اداروں یعنی پاک فوج یا عدلیہ پر تنقید کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور سزا کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی ہو سکتا ہے اگر جرم سنگین ہوا تو ممکن ہے کہ گھر سے اٹھایا جانے والا تنقید کنندہ کسی گندے نالے یا سمندر کے کنارے مردہ مل جائے۔
بچپن سے لے کر آج تک یہی سنتے رہے کہ ”کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے“ مگر جب کشمیر کو ہماری ضروری پڑی اور بحکم رب کائنات جو قرآن میں فرماتا ہے کہ جب تم اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم ہوتا دیکھو تو تم پر جہاد لازم ہے مگر یہاں تو ہم نے منہ پھیرا اور بھاگ لئے۔
مشرقی پاکستان میں بھی ہتھیار ڈالے، مسلمان بھائیوں کو جو آج تک پاکستان کے جھنڈے تلے مشرقی پاکستان میں بیٹھے ہیں، اپنے وطن میں آنے کی اجازت نہ دی۔ ہم نعرہ لگاتے ہیں، نعرہ حیدری یا علی، ہمارے فوجی ایسے ہی اسلامی نعروں کو سن سن کر اپنی رگوں میں خون گرم کرتے رہتے ہیں۔ وہ یقیناً لڑنے اور شہادت کا گھونٹ پینے کی حسرت لئے جی رہے ہیں مگر ہمارے کمانڈر کسی اور ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اب اگر جنرل باجوہ نے سوچ ہی لیا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی ملک بھارت سے تعلقات استوار کرنا چاہئے تو پھر فوری بسم اللہ کریں۔ یوں ایک جانب تو پاکستان اور بھارت کے مابین کاروبار کے فروغ میں مدد ملے گی اور دوسری جانب ہمیں ایک بہت بڑی فوج کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نہ ہی ہمیں کسی ایٹم بم کی حفاظت پر مزید رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ یقیناً ہمارا دفاعی بجٹ بھی کم کیا جائے گا اور یوں پاکستانی قوم اپنے پڑوسی ملک میں آمدورفت جاری رکھ سکے گی۔
ہندوستانی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے مابین بھی محبتوں میں اضافہ ہو گا اور یوں بھائی چارہ کو فروغ حاصل ہوگا۔ رہا کشمیر کا معاملہ تو ہم نے تمام مسلمانوں کا ٹھیکہ تھوڑی لے رکھا ہے اور اگر مسئلہ کشمیر ہے بھی تو اسے جنگ سے نہیں بلکہ بات چیت سے ہی حل کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ جنرل باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے جونیئرز افسران کو بھی اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ ہمیں جنگ و جدل کا راستہ چھوڑ کر امن کے فروغ کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اب ہماری افواج کو ملک کی ٹوٹی پھوٹی روڈز کو ازسرنو تعمیر کرنا ہو گا۔ ہمارے ایسے بیمار صنعتی یونٹ جو ماضی میں غلط پالیسیوں کے سبب بند کر دیئے گئے تھے انہیں فوج اپنی سربراہی میں دوبارہ کھول سکتی ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز جیسے ادارے جو آج بند پڑے ہیں روس کی مدد سے دوبارہ چلائے جا سکتے ہیں۔ یوں فوج عوام کی معاونت سے بہت کچھ اب کرسکتی ہے جو ماضی میں نہیں کیا گیا۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قمر جاوجد باجوہ کو کامیاب کرے اور ان کی نیک تمناﺅں کو پورا کرے۔ ہماری اپنے فوج کے جنرلوں سے یہ امید بھی ہے کہ وہ ملک سے چوروں، اچکوں اور بدمعاشوں کا خاتمہ کرکے جن میں لینڈ گریبر، پانی چور اور بجلی چور سرفہرست ہیں کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لائے گی۔ اور جس طرح فوج کی سرپرستی میں فوجی شوگر ملز، فوجی سیمنٹ فیکٹریاں، کامرہ فیکٹری، واہ آرڈیننس فیکٹری وغیرہ کامیابی سے اور منافع بخش طریقہ سے چل رہی ہیں ملک کے دیگر بند ادارے بھی فوج اپنی تحویل میں لے کر چلائے اور انہیں منافع بخش بنائے۔ یہی فوج سے امید ہے اور عوام فوج کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے یوں ملک کے سیاستدان فوج کے بارے میں جو پاکستانی عوام کی رائے تبدیل کرنا چاہتے ہیں وہ ناکامی سے ہمکنار ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں