عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 78

امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے

امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے اپنی صلاحیتں اور اپنی انتھک کاوشوں کے ذریعے اپنے محب الوطن ہونے کا ایک ناقابل تردید ثبوت دیدیا ہے جس کے لئے وہ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔
میں یہ کالم پاکستان کے ان 25 کروڑ مظلوم اور بے زبان پاکستانیوں کی جانب سے لکھ رہا ہوں جو خوف کے مارے امریکہ میں مقیم ان دلیر اور سچے پاکستانیوں کو مبارکباد بھی نہیں دے سکتے کہ انہیں ڈرہے کہ اگر انہوں نے سوشل میڈیا پھر اس طرح کی کوئی پوسٹ بھی کردی تو انہیں گھروں سے اٹھوا کر غائب کردیا جائے گا۔ اب ذرا یہ بھی بتاتا چلوں کے آخر پاکستانی کمیونٹی امریکہ نے ایسا کون سا کارنامہ سر انجام دے دیا جس کی وجہ سے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا ہوں۔
قارئین انہوں نے وہ کام کیا ہے جو آج تک کوئی بھی نہ کرسکا جس کی وجہ سے ان کی جتنی بھی تعرفی کی جائے کم ہے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے دراصل دم پر پیر رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے وہ سپرمین بلبلا اٹھا جو امریکہ کی سرپرستی میں پاکستان میں عرصہ دراز سے بلاشرکت غیرے حکمرانی کررہا ہے اور پاکستانی کمیونٹی نے خود امریکی کانگریس پر غیر معمولی دباﺅ ڈال کر امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے معاملات کے حوالے سے جواب دہ بنا لیا ہے جس سے امریکی انتظامیہ بھی ہل کر رہ گئی اور انہیں رجیم چینج کے حوالے سے کانگریس کے سامنے صفائیاں دینا پڑ رہی ہیں اور پاکستان میں ہونے والے الیکشن کے دھاندلی پر بھی انہیں پاکستان سے وضاحت لینا پڑ رہا ہے یعنی اپنی کھال کو بچانے کے لئے امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے اب فاصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے یکجہتی اور ہمت و جرات کی وجہ سے ہی ممکن ہوا اور انہوں نے اپنے ان سرگرمیوں کی وجہ سے یہ ثابت کیا کہ کیا ہوا کہ وہ ملک سے دور ہیں مگر ان کا دل اور ان کے جذبات و احساسات تو ہر وقت پاکستان کے لئے مچل رہے ہیں۔ وہ پاکستان کو مزید اپنوں ہی کے ہاتھوں مزید تباہ و برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اور انہوں نے انتہائی سمجھداری اور دانشمندی سے اس ساری برائی اور خرابی کا توڑ تلاش کیا کہ یہ معاملہ صرف اور صرف پاگل کو نہیں بلکہ پاگل کی ماں کو مارو، کے فارمولے پر عمل کرنے سے ہی حل ہو سکتا ہے جس کے بعد پاکستان کے ان سر پھروں کو قابو کرنے کے لئے ان کے سرپرستوں یعنی امریکی انتظامیہ کو قابو کرنے کے لئے امریکی سینیٹرز کی خدمات حاصل کی گئی۔ انہیں مہینوں بلکہ سالوں کی جدوجہد کے بعد اینگیج کیا، انہیں قائل کیا، انہیں ساری صورتحال بتائی کہ پاکستان میں کوئی جمہوریت نہیں برائے نام الیکشن ہوتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اپنی کٹھ پتلی حکومتیں بنواتی رہتی ہیں اور عمران خان کے حکومت کے خاتمے میں امریکی دھمکی اور سائفر کے معاملے پر بھی سینیٹرز کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔
یہ ایک بہت بڑا مشن تھا، اتنا بڑا مشن کے اس مشن کی وجہ سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی چیخیں نکل گئی اور ان کا غصہ امریکہ میں موجود پاکستانی سفارتکاروں پر نکلا کہ وہ وہاں بیٹھ کر کیا جھک مار رہے ہیں، کیوں اس پاکستانی کمیونٹی کو قابو کرتے ہیں اور اس کے بعد پاکستانی سفارتکاروں کے ذریعے امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے سرکردہ لوگوں کے پاکستان میں موجود قریبی رشتہ داروں کے خلاف حسب عادت بلیک میلنگ کرتے ہوئے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے یعنی وہ اپنی گری ہوئی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں مگر کچھ بھی کرلے پاکستانی امریکی کمیونٹی نے اس طرح کا ڈنڈا کردیا ہے کہ ان کی چیخیں یہاں امریکہ اور کینیڈا میں سننے کو مل رہی ہے۔ بقول علامہ اقبال
انداز بیان گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاہد کے تیرے دل میں اتر جائے مری بات
میں بھی اپنے ارباب اقتدار سے یہ ہی توقع اور امید رکھوں گا کہ میرا یہ انداز مناسب نہیں ہے مگر انہیں ان ہی کی زبان میں سمجھانے کے میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ مقصد انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنا تھا کہ اب پاکستان بدل گیا ہے، اس لئے وہ بھی اپنی روش بدلے اور زمانے کے ساتھ چلنے کی عادت اپنالے، ہر ایک کے وجود کو تسلیم کرنے کا سلسلہ شروع کرکے قانون کی تابعداری اپناتے ہوئے انہیں حکمرانی کا موقع دے کر ملک کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی آزادی میں شامل کروانے میں اپنا کردار ادا کریں، اسی میں پاکستان کی سلامتی اور فلاح مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں