پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک عرصے سے خراب چلے آ رہے ہیں۔ ان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے پسِ پردہ ا ور خفیہ م±لاقات کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں ممالک کو اپنے اپنے م±فادات عزیز ہیں۔ امر یکہ پاکستان سے امداد کے عوض پوری وفاداری کا خو اہاں ہے۔ امریکہ کہ خواہش ہے کہ پاکستان امریکہ کا د±م چھلہ بن کر خطے میں امریکی احکامات کی پیروی کرے۔ لیکن پاکستان کی حکومت کا سرکاری موقف ہے کہ و±ہ ایک آزاد مملکت کے مالک ہیں۔ جہاں ا±ن کی اپنی حکومت ہے۔ و±ہ اپنے معاملات میں دوسرے ممالک کی دکٹیشن نہیں لیں گے۔ لیکن اِس کے بر عکس امریکہ کی حکومت اور انتظامیہ کا ماننا ہے کہ پاکستان ا±نکا اتحادی م±لک ہے۔ ہم مالی امداد پاکستان کو فراہم کرتے ہیں۔ ا±س کا اخلاقی طور پر فرض بنتا ہے کہ و±ہ کام میں امریکی احکامات کی پیروی کرے۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ اور پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک دوسرے کے اتحادی ممالک ہیں اور خطے میں دونوں ممالک کو اپنے اپنے م±فادات کے تحفظ کے لئے ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے۔ امریکی کو اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان کے مدد کے بغیر و±ہ افغانستان میں کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پاکستان اور امریکہ سوویت یونین کی افواج کے افغانستان سے انخلاءکے سلسلہ میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر چکے ہیں۔ و±ہ پاکستان افواج کی صلا حیتیوں اور کمزوریوں سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ و±ہ پاکستان سے اپنے تعلقات کو کلی طور پر ختم نہیں کرنا چا ہتے۔ امریکی حکومت اِس بات کو بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت تمام تر کوشش کے با وجود افغانستان میں پاکستان کی طرح اثر ور سوخ حا صل نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں پشتون پٹھانوں کی خاصی تعداد آباد ہے۔ جن کے رشتہ دار صدیوں سے افغانستان اور پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ وہ لوگ اپنے عزیزوں سے ملنے کابل، پشاور اور متعدد دوسرے شہروں میں آتے جاتے ہیں۔ اِن کو ر وکنا افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے لئے بے حد مشکل کام ہے۔ دونوں ممالک کے باشندے ایک ہی طرح کا لباس پہنتے ہیں۔ ز±بان اور تہذیب کے یکساں ہونے کی وجہ سے اطراف میں ایک تعلق اور تعاون موجود ہے۔ مزید براں، اس حقیقت سے تمام د±نیا کے ممالک واقف ہیں کہ پاکستان کی حکومت کی وجہ سے طالبان جیسی تنظیم نے جنم لیا اور کئی بر س تک افغانستان میں اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں رکھا۔ اِس لئے امریکہ کو بخوبی اندازہ ہے کی پاکستان کی آرمی کے طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات موجود تھے اور کئی بر س بیت جانے کے بعد بھی پاکستان کی حکومت کے ہنوز افغانستاں میں موجود م±ختلف دھڑوں سے تعلقات قایم ہیں۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ امریکہ کی مالی امداد کے بدلے و±ہ امریکی م±فاد ات میں کام کرے۔
پاکستان کی حکومت اور اِسکی ا فواج امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر کئی کامیاب آپر یشنز کر چ±کی ہیں۔ امریکہ کی حکومت اور فوج پا کستان کے ا فغانستان کے سیاسی اثر ورسوخ سے آ گاہ ہے۔ اس کے علاوہ و±ہ پاکستان کی فوج کی صلا حیتوں سے واقف ہے۔ لیکن یہ صلاحیت بھارت کی افواج میں موجود نہیں۔ بھارت نے افغانستان میں اپنے پاو¿ں جمانے کے لئے امریکہ کی ہر طرح سے خ±وشنودی کی ہے لیکن معمالات بھارت کے حق میں بہتر ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ بھارت امریکہ کو جنوبی ایشیا میں اپنا حلیف مانتا ہے۔ حلیف تسلیم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ بھارت کی شکل میں ایک و سیع اور عر یض منڈی ہے جہاں اسکے مال کی کھپت پاکستان کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔امریکی کسی بھی صورت مں بھارت سے اپنے تعلقات کو بگاڑنا نہیں چاہتا۔ با الفاظِ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ بھار ت کو علاقے میں پاکستان سے زیاہ اہمیت دیتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی م±لک علاقے میں موجود منڈی کو کھونا نہیں چاہتا۔ اس لئے بھارت کو خ±وش کرنے کے لئے امریکہ نے جنوبی ایشیا میں اپنا سٹر یٹیجک پارٹنر بنایا ہے۔ جنگ کی صورت میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے فوجی تعاون کریں۔ اگر چہ امریکہ نے پاکستان کی اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کی۔ لیکن و±ہ پاکستان کو افغانستان کے ہر مسئلہ کا حل سمجھتا ہے۔ لہذا و±ہ پاکستان سے بھی کسی نہ کسی تعلق کو قایم رکھنے کا خواہش مند ہے۔ اِسی لئے و±ہ افغانستان میں پاکستان کو ملوث رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کا پاکستان کو اپنا اسٹجیک پارٹنر نہ بنانے کی ایک وجہ پا کستان کاچین سے الحاق ہے۔ امریکہ ا پنے فوج کے راز پاکستان کے توسط سے دوسرے ممالک کو نہیں دینا چاہتا۔ان حالات میں امریکہ کے اپنے تحفظات ہیں تو پاکستان کے تحفظات اس سے بھی زیادہ ہیں۔تاہم امید ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے تحفظات کے باوجود ایک دوسرے کے قریب رہ کر امن عالم میں اپنا کردار لازمی ادا کریں گے۔
732