امریکی کانگریس میں پاکستانی انتخابات اور جمہوریت پر سماعت میں ڈونلڈ لو مدعو۔ پاکستان کی نئی حکومت پر اس کا کیا اثر پڑیگا؟ 124

امریکی کانگریس میں پاکستانی انتخابات اور جمہوریت پر سماعت میں ڈونلڈ لو مدعو۔ پاکستان کی نئی حکومت پر اس کا کیا اثر پڑیگا؟

ٹورنٹو/شکاگو (پاکستان ٹائمز) امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کی ایک ذیلی کمیٹی پاکستان میں انتخابات، جمہوریت کے مستقبل اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے موضوع پر سماعت کرے گی۔ یہ سماعت کمیٹی برائے خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی برائے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور وسطیٰ اشیا کے تحت 20 مارچ کو ہو گی جس کی صدارت کانگریس مین جو ولسن کریں گے۔ امریکہ میں یہ سماعت ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب پاکستان میں متعدد سیاسی جماعتوں کی طرف سے 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف احتجاج کرنے والی جماعتوں میں سے سب سے بڑی پارٹی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کرکے ان کی نشستیں کم کروائی گئی ہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات میں پی ٹی آئی بحیثیت سیاسی جماعت حصہ نہیں لے پائی تھی کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کا انتخابی نشان ا ±ن سے واپس لے لیا گیا تھا۔ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیتی تھیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے 75 اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 54 سیٹیں جیتی تھیں۔ پاکستان میں اس وقت ن لیگ، پی پی پی اور دیگر جماعتوں کی اتحادی حکومت قائم ہے۔ پاکستان میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی گونج امریکہ میں اس وقت س ±نائی دی جب امریکہ میں دو درجن سے زائد اراکینِ کانگریس نے صدر جو بائیڈن اور سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہ ہو جائیں۔ ٹیکساس سے منتخب ہونے والے ر ±کنِ کانگریس کی جانب سے لکھے گئے خط پر مزید 30 اراکین کے دستخط بھی موجود تھے۔ اس خط میں امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’پاکستانی حکام پر واضح کیا جائے کہ امریکی قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے والوں کا احتساب کرتا ہے۔‘ کمیٹی برائے خارجہ امور کی ذیلی کمیٹی کی چیئرمین شپ ری پبلکن سینیٹر جو ولسن کے پاس ہے۔ سماعت کے دوران ان کے اردگرد کمیٹی کے دیگر نمائندگان بھی موجود ہوں گے۔ ماضی میں متعدد سماعتوں میں بطور ’وِٹنس‘ پیش ہونے والے اٹلانٹک کونسل سے منسلک تجزیہ کار شجاع نواز نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ عام طور پر کمیٹی کے سامنے ایسی سماعتوں میں متعدد شخصیات پر مشتمل ایک پینل پیش ہوتا ہے اور وہ کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ لیکن اس بار کمیٹی کی جانب سے صرف ایک شخصیت کو بطور ’وِٹنس‘ ب ±لایا گیا ہے اور وہ شخصیت ہیں امریکی محکمہ خارجہ کے ’بیورو برائے وسطیٰ ایشیا‘ سے منسلک اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو۔ ڈونلڈ لو اس سماعت کے دوران نہ صرف پاکستانی انتخابات کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کو رائے دیں گے بلکہ کمیٹی کے اراکین کے سوالات کے جواب بھی دیں گے۔ ڈونلڈ لو کا نام پاکستان میں رہنے والوں کے لیے نیا نہیں کیونکہ یہ وہی امریکی شخصیت ہیں جن پر سابق وزیرِاعظم عمران خان نے پی ٹی آئی حکومت گرانے کا الزام لگایا تھا۔ امریکہ کی جانب سے ان الزامات کی متعدد مرتبہ تردید کی جا چکی ہے۔ شجاع نواز نے اس حوالے سے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ سماعت اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ عمران خان کی جانب سے الزامات لگائے جانے کے بعد طویل عرصے سے ڈونلڈ لو منظرِعام پر نہیں تھے اور اب وہ بڑے عرصے بعد پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔‘ شجاع نواز کے مطابق اس سماعت کے دوران پاکستان کے انتخابات پر سوالات بھی متوقع ہیں۔ واشنگٹن میں پاکستان سے متعلق معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عزیر یونس بھی شجاع نواز کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ وہاں کانگریس کے اراکین کی جانب سے ڈونلڈ لو سے پاکستانی انتخابات کی ساکھ اور جمہوریت کی حالت کے حوالے سے سوالات بھی پوچھے جائیں گے۔‘ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سماعت کے دوران پاکستان پر چینی قرضے اور اقتصادی اور سیاسی استحکام کے حوالے سے بھی سوالات پوچھے جا سکتے ہیں۔ واشنگٹن میں خارجہ پالیسی اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے پاکستان میں انتخابات اور جمہوریت پر سماعت منعقد کرنا پی ٹی آئی لابنگ کا نتیجہ ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اور واشنگٹن کے ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے ساتھ بطور سکالر منسلک حسین حقانی کا کہنا ہے کہ ’ایسا لگتا ہے کہ یہ سماعت امریکہ میں پی ٹی آئی حامیوں کی لابنگ کا نتیجہ ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات بین الاقوامی سطح پر ا ±ٹھانے چاہتے ہیں اور وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب بھی ہوں گے۔‘ امریکی تھنک ٹینک دا ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کگلمین بھی سمجھتے ہیں کہ 20 مارچ کو ہونے والی ’سماعت امریکہ میں عمران خان کے حامی پاکستانی امریکی ووٹ دہندگان اور پی ٹی آئی کی لابنگ کا نتیجہ ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں عمران خان کی مقبولیت اور یہاں پی ٹی آئی کی مستحکم موجودگی کے سبب کانگریس کے متعدد اراکین پاکستان کی صورتحال سے واقف ہیں اور یہ سب انھوں نے امریکہ میں موجود پاکستانی ووٹ دہندگان سے س ±نا ہوگا۔‘ سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جماعت اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے ہونے والی سماعت ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم نے بین الاقوامی اور قومی سطح پر (انتخابات میں مبینہ دھاندلی) کے حوالے سے آواز ا ٹھائی اور بطور سیاسی جماعت ہمارا کام ہی آگاہی پھیلانا ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم نے ہر ملک میں آواز ا ±ٹھائی ہے اور اگر امریکہ کے چند اراکینِ کانگریس نے یہ سماعت بلائی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے پاکستان کی صورتحال دیکھی اور پاکستان میں انتخابات میں جو دھاندلی ہوئی، اس کو سامنے لانے والی پی ٹی آئی ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں