ریاست جمہوریہ/عسکریہ پاکستان 74

انتخابات

ان سطور کےشائع ہونے تک پاکستان کی 25 کروڑ آبادی اپنی تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات سے نبرد آزما ہو چکی ہوگی۔ اسے متنازعہ بنانے میں کس کس نے کیا کی کردار ادا کیا اس کی تفصیل پاکستانیوں کے لئے ایک دلخراش حقیقت ہے۔ جس میں ناعاقبت اندیش سیاستدان، بدعنوان بیوروکریسی، آئین کی پاسداری سے مبرا عدلیہ، قانون شکن اسٹیبلشمنٹ اور فوج کا مقتدر ادارہ تمام یکساں شریک نظر آتے ہیں اور وہ جو اس تمام مرحلے کے اہم ترین جزو، یعنی عوام جو پاکستان کے آئین کے مطابق منتخب کرنے کا حق رکھتے ہیں کی حق رائے دہندگی پر مختلف طریقوں سے قدغن لگانے کی تگ و دو کی گئی ہے۔ پاکستان میں انتخابات عام طور پر ابہام اور شکوک و شبہات کے شکار رہے ہیں سوائے ایک 1970ءکے انتخابات جس کی شفافیت کے نتیجے میں ملک کو دولخت کردیا گیا۔
عالمی سطح پر رائے دہندگی یا ووٹ کا حق ایک ایسی طاقت ہے جو قوموں کو اپنے لئے تبدیلیوں، انقلابات اور اندرونی استحکام اور بہتر مستقبل اختیار کرنے کی راہ ہموار کرنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ ہر ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو اظہار رائے کا ایک ایسا محفوظ ماحول فراہم کرے جس میں بلاتفریق ہر ایک کو اس معاملے میں مکمل آزادی ہو۔ یہ ہی جمہوریت کا بنیادی رکن ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ جو سلوک ہوتا رہا ہے اس نے آج تک نہ صرف ریاست پاکستان کی سالمیت بلکہ اس کے وقار کو عالمی سطح پر بری طرح مجروح کیا ہے۔ موجودہ حالات اس نوعیت کی بدترین مثال ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر پاکستان اپنے اندرونی حالات اور انتخابات سے متعلق معاملات پر انتہائی نچلے درجہ کے درجہ پر گردانا جارہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور سیاسی مبصرین پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دے رہے ہیں۔ اپنے حالیہ بیان میں اقوام متحدہ نے جس طرح سے پاکستان کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان تمام محرکات اور متضاد طرز عمل پر جو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کے لئے اختیار کیا جارہا ہے پر تبصرہ کیا ہے وہ ریاست پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہے۔ ٹائمز، بلوم برگ، فنانشیل ٹائمز، اکنامسٹ اور نیویارک ٹائمز جیسے جریدوںمیں بھی اس سلسلے میں مختلف مضامین شائع ہو چکے ہیں جن میں کھل کر اس کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان کے حالیہ انتخابات میں مقتدر اداروں کی شمولیت فیصلہ کرنے کا اختیار عوام سے لے چکی ہے۔ نتائج ترتیب دیئے جا چکے ہیں۔
8 فروری 2024ءمیں اس پاکستانی الیکشن میں مجموعی طور پر 44 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں جس میں کل 65,916 امیدوار ہیں چونکہ قبائلی علاقاجات یعنی فاٹا کا انضمام خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت کے دورانیہ میں انجام پایا اس لئے اب قومی اسمبلی کی نشستیں 342 سے کم ہو کر 336 ہو گئیں ہیں۔ اب وفاقی حکومت تشکیل دینے کے لئے 169 نشستیں درکار ہوں گی۔ خبروں کے مطابق ن لیگ کو یقین دلایا گیا ہے کہ 110 نشستیں دلوا دی جائیں گی۔ نواز شریف کی پاکستان واپسی کی بنیاد ہی کچھ یقین دہانیوں پر ہوئی ورنہ وہ پی ڈی ایم دور میں واپسی کی ہمت نہیں کر سکے۔ تحریک انصاف کا وجود تمام 13 اتحادیوں کے لئے کسی بڑی مشکل سے کم نہیں رہا۔ تحریک انصاف کی سیاسی میدان سے غیر حاضری ہی ن لیگ کا سب سے اہم اصرار تھا۔ تحریک انصاف کے کارکن اور عہدیدار کو نو مئی کی آڑ میں جس طرح ملوث ہونے کا بیانیہ بنا کر گرفتاریاں کی گئی اس سے صورت حال واضح کردی گئی۔ انتخابا کا اعلان ہونے کے بعد جو طرز عمل اپنایا گیا اس کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ تاحال امیدواروں کے اغواءکے سلسلے جاری ہیں۔ تحریک انصاف سے بلے کا نشان انٹرا پارٹی الیکشن کے بہانے واپس لے لینے کا وار دراصل عمران خان پر نہیں بلکہ ان ڈھائی کروڑ سے زیادہ شہریوں پر ہے جو حکومتوں کی ناکام تعلیمی پالیسیوں کا شکار ہو کر بدقسمتی سے ناخواندہ ہیں اور صرف نشان دیکھ کر ہی اپنے امیدوار کے لئے ٹھپہ لگا سکتے ہیں۔
2018ءمیں تقریباً ووٹرز ٹرن آﺅٹ پچاس یا باون فیصد کے قریب تھا جب کہ ان انتخابات میں خیال کیا جارہا ہے کہ 60 فیصد سے زیادہ افراد اپنا حق رائے دہندگی استعمال کریں گے جس میں ایک کثیر تعداد نوجوان ووٹرز کی ہے۔ گزشتہ حالیہ دنوں میں نگراں وزیر اعظم اور پھر خصوصی طور پر آرمی چیف کا نوجوانوں سے خطاب نے اس امر کا مزید یقین دلایا کہ خوف کی عمیق گہرائیاں ہیں تمام انتظامات اور اختیارات کے باوجود الیکشن سے چند روز قبل عمران خان کو سائفر، توشہ خانہ اور عد نکاح کے سلسلے میں سزا سنا دی گئی اور شاید 8 فروری سے پہلے باقی سزا بھی سامنے آجائے مگر تمام سروے جو مختلف اداروں کی جانب سے کئے جارہے ہیں یہ تمام صورت حال بھی تحریک انصاف کے کارکنوں کو بدل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ تحریک انصاف کے امیدوار اب آزاد حیثیت سے انتخابات میں شریک ہو رہے ہیں۔ ان پر کریک ڈاﺅن کا سلسلہ جاری ہے اور شاید 8 فروری کو اس سلسلے میں کوئی انتہائی قدم اٹھائے جانے کے امکان بھی ہو سکتے ہیں۔ آزاد امیدواروں کی کامیابی سیاسی میدان میں ایک نیا قضیہ کھول دے گی۔ پاکستان کی سیاست میں کاروبار سرائیت کرچکا ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں کھل کر ان آزاد امیدواروں کی بابت بیان دے رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے کامیابی سے الیکشن مہم چلائی ہے۔ بلاول بھٹو اپنے کو ایک نئی سوچ کا علمبردار کے طور پر عوام کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ استحکام پارٹی، ن لیگ سے سیٹ ایڈجسمنٹ کے ساتھ نواز شریف سے مفاہمت کو اپنے لئے خوش قسمتی قرار دے رہی ہے اس کا اعلان جماعت کے صدر جہانگیر ترین جلسوں میں کررہے ہیں۔ نیرنگیاں ہیں سیاست کی
الیکشن کمیشن نے جو ”انتظامات“ اس الیکشن کو ”شفاف“ بنانے کے لئے کئے ہیں اس میں فوج سے مدد لینے کے ہمراہ نصف سے زائد پولنگ اسٹیشنز  کو ”حساس“ قرار دے دیا ہے۔ اس ”حساسیت“ کو کس طرح استعمال کیا جائے گا پولنگ کے عمل کو سست روی میں ڈھالنے کے لئے یا پھر پولنگ ایجنٹس پر دباﺅ ڈالنے کے لئے۔ یہ سامنے آئے گا۔ نئے الیکشن مینجمنٹ سسٹم کو بھی متعارف کیا گیا ہے۔ اندرونی ذرائع کے مطابق اس کا تعلق نادرا سے قائم کیا گیا ہے اور اس میں موجود ڈیٹا کی منتقلی کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
8 فروری کو انتخابات کے کیا نتائج آئیں گے۔ ووٹر کس مزاج اور کس تعداد میں نکل پائیں گے۔ اس کا انحصار انتظامیہ کے طرز عمل پر ہوگا۔ بظاہر فی الوقت تو یہ انتخابی عمل چند سیاسی اکابرین اور مقتدر اداروں کے مابین کھیلا جا چکا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں