تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 520

اُردو بیوہ یا سہاگن

رُخصتی کے موقع پر سب نے اس کو آنسو بہاتے ہوئے دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ جاﺅ اب اس گھر کی دہلیز کے پار دوسرے گھر تمہیں جانا ہے، وہی ہی تمہارا آخری ٹھکانا ہے، وہیں پر تمہیں رہنا ہے، وہیں پر تمہیں جینا ہے، وہیں پر مرنا ہے، جہاں سے تمہارا جنازہ ہی نکلے گا، اب اس گھر سے تم رُخصت ہوئیں، اب تم غیر ہوئیں، وہ ہی تمہارے اپنے ہیں، انہی کے ساتھ ہمیشہ کے لئے رہنا ہے۔ اس گھر میں تمہیں سب نے اپنے دل سے لگا کر رکھا، ہر طرح کی نعمتیں تمہارے لئے مخصوص کردیں۔ تم اس گھر کی لاڈلی تھیں جہاں پر تم نے آنکھیں کھولیں، سب نے تمہارے وجود کے لئے دیدہ دل فرش راہ کیا۔ تمہیں سب پر فوقیت دی، ہر طرح کی سہولتیں دی گئیں۔ تمہاری خوب خدمت کی، کوئی کسر نہ چھوڑی، جو کچھ تمہارے لئے ہو سکا وہ کیا، تمہاری ایک ایک خواہش کی تکمیل کے لئے سب مل کر تن من دھن لگاتے تاکہ تمہاری کوئی آرزو نہ رہے، بچپن میں سب نے اپنے ہاتھوں سے پالا، سر پر بٹھایا، پلکوں پر سجایا، آنکھوں میں بسایا، دل میں سمایا، سینے پر سلایا، تمہیں کوئی تکلیف نہ دی، جب ننھی کلی بن کر کھلنے لگی سارے گھر کا آنگن تمہاری خوشبو سے مہکنے لگا، ہر سمت تمہاری خوشبو پھیلنے لگی، جو گھر سے نکل کر دور دراز تک پہنچی۔ یوں جب جوان ہوئیں تو مہارا نصیب اس گھر میں تھا جس کے گھر والوں سے ہمیں ملنا پسند نہیں تھا مگر تمہاری خواہش کے آگے سر جھکایا اور تمہیں اس گھر میں رخصت کرنے پر تیار ہو گئے جو گھر ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ یوں وہ اپنے گھر سے رخصت ہو گئی جہاں پر اس نے وجود پایا اور پروان چڑھی، دوسرے گھر سدھار گئی۔ اپنے گھر سے دیس نکالا ہوا تو اس امید پر اپنے نئے گھر کو سدھاری کہ اس کا گھر والا اس کو بہت چاﺅ سے بیاہ کر نئے گھر لے گیا تھا جہاں دیور اور نندوں پر مبنی ایک بھرا پرا خاندان آباد تھا۔ گھر والا ارادے کا مضبوط مگر صحت کا کمزور اپنی اس کمزوری کے باوجود بڑی نند کے پاس ہاتھ پکڑ کر لے گیا اور بھرے مجمع میں کھڑے ہو کر کہا یہ سہاگن آج سے اس گھر کی نئی مالکن ہے یہ ہی اس گھر کی زبان ہو گی اس کی زبان سب کی زبان ہو گی۔ بڑی نند نے فوراً اس سے انکار کیا اور اپنا اس نئے گھر سے ناطہ توڑ کر الگ رستہ بنا لیا۔
گھر والا جو ارادے کا مضبوط صحت میں کمزور اس صدمہ کو سہہ نہیں سکا اس نے دنیا میں اس سہاگن کو چھوڑ کر اپنی آنکھیں بند کرلیں یوں وہ نئے گھر میں آتے ہی بیوہ ہو گئی۔ یہ تھی اردو جو نئے گھر پاکستان میں سب کی بھابھی بن کر بیوہ ہو گئی امید پر زندگی گزارتی رہی اور اپنے دن پورے کرتی رہی۔ چاروں دیوروں نے اپنی بھابھی بنا کر اپنے ہی خاندان میں رکھا۔ باہر نہ نکالا۔
مگر باہر سے ایک گوری میم انگریزی کو بغیر کسی معاہدے یعنی نکاح کے گرل فرینڈ بنا کر لے آئے یہ گرل فرینڈ بھی اپنے چاروں چاہنے والوں کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی اردو اپنا دل تھامے اس سوکن کے تماشے دیکھتی رہی، آہیں بھرتی رہی، اپنے گھر والے کو یاد کرتی رہی، وہ ہوتا تو وہ اپنے گھر کی زینت بنا کر رکھتا مگر اس کم بخت انگریزی گرل فرینڈ نے سب کی آنکھیں خیرہ کی ہوئیں تھیں سب اس کی گوری رنگت کے دیوانے سب ہی اس کی زلف کے اسیر اور یہ بے چاری اردو اپنے سر پر سفید چادر ڈالے اپنی عزت کو قائم رکھتے ہوئے گھر کے ایک کونے میں پڑی اپنی موت کی منتظر کہ کب اس کا جنازہ اٹھے اور اب جب کہ اس گھر میں جہاں پر سب نے اس کو غریب کی جورو سمجھ کر گھر کے ایک کونے میں ڈالا ہوا ہے مگر اب بھی اس کو ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔ یہ ہے پاکستان کی قومی زبان اردو کی کہانی اس کہانی کی حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان تک اس زبان کی خدمت کرنے
میں پورے ہندوستان کے ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ آگے سے آگے تھے مگر قیام پاکستان کے بعد بھارت نے اردو کی جگہ ہندی جو کہ سنسکرت کی جدید شکل بھی ہے اس کو رائج کرنا شروع کردیا یوں اردو زبان کی بنیادیں کھوکھلی کرنی شروع کردی۔ اردو الفاظ ان جگہوں پر استعمال کرتے ہیں جہاں ناگزیر ہوں جیسے کہ وہ اب تک فلمی گانوں سے اردو کو خارج نہ کر سکے، اب بھی اردو اور ہندی میں وہی فرق ہے جو امریکن اور انگلش میں ہے۔ ہندی کو ہندوستان میں ہر جگہ رائج کرنے کی کوشش جاری ہیں اس کی کمزور حیثیت کو دور کرنے کے لئے انگریزی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے سرکاری اداروں میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی اعلیٰ اداروں میں انگریزی کو استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے لئے انگریزی کو استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام دو ذرائع تعلیم میں تقسیم ہو چکا ہے، نچلے درجہ کے لئے اردو اعلیٰ درجہ کے لئے انگریزی لازمی سمجھی جاتی ہے ملک کے جاگیری نظام میں اعلیٰ طبقہ انگریزی کا استعمال کرتا ہے، نچلے درجہ کے لوگ اردو کے ساتھ علاقائی زبانیں استعمال کرتے ہیں، یہ بھی اپنی جگہ اہم بات ہے کہ اس ملک و قوم کو دینے والوں کی اکثریت اردو اور علاقائی زبانوں سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اس ملک کو لوٹنے والے اور کھانے والے انگریزی میڈیم ہیں۔
ان انگریزی میڈیم کے شاطروں نے جان بوجھ کر اردو زبان کے مقابل علاقائی زبانوں کو کھڑا کرنے کی چالیں قیام پاکستان سے ہی شروع کردی تھیں جس کا پہلا شکار مشرقی پاکستان کے بنگالی مسلمان ہوئے۔ آج وہاں بھی انگریزی اعلیٰ طبقہ کی زبان ہے اور بنگالی نچلے طبقہ کی زبان۔ اب یہاں موجودہ پاکستان میں انگریزی کے مقابلے ر اردو کو کھڑا کرنے کے بجائے سازش سے پنجابی زبان یا سندھی زبان کے مقابل لایا جارہا ہے۔ اردو زبان کو انگریزی زبان کی جگہ رائج کیا جائے جیسا کہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے حکم پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اس کا مقصد انگریزی کی جگہ سرکاری زبان اردو اور رابطے کے لئے انگریزی استعمال کی جا سکتی ہے اس ہی طرح صوبوں میں دوسرکاری زبانیں ہونی چاہئیں پنجاب میں اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی، سندھ میں اردو کے ساتھ سندھی، اس ہی طرح انگریزی بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے اردو قومی زبان اور سرکاری زبان کی حیثیت سے صوبائی زبانوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں رائج کی جائے یوں اردو کے ساتھ علاقائی زبانیں بھی فروغ پا سکیں گی۔
جیسا کہ یہاں کینیڈا میں دو زبانوں کو باقاعدہ سرکاری اور قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے، ہر صوبے میں انگریزی کے ساتھ ساتھ فرنچ کو بھی رائج کیا جاتا ہے، اس طرح یہاں کے لوگوں میں انگریزی اور فرنچ کو برابری حاصل ہے۔ اگر ہمارے ملک کے صاحب اختیار افراد کی نیت درست ہوتی تو سپریم کورٹ کے اردو کو سرکاری زبان کو اختیار کرنے کے فیصلہ پر صدق دل سے عمل کرکے اردو کو اس جائز حق دلوایا جاتا۔ اب وقت بتائے گا کہ اردو کو اس کا حق سہاگن کی طرح ملے یا بیوہ کی طرح۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں