تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 437

اُردو زبان اور سیاسی ریلوکٹا

ایک مشاعرے کی صدارت ایک بڑے سرکاری افسر کررہے تھے اور اپنے وقت کے معروف استاد نوح ناروی اپنا کلام پیش کررہے تھے۔ صدر مشاعرہ سرکاری افسر حیرت اور بڑے غور سے نوح ناروی کا کلام سن رہے تھے۔ جب نوح اپنا کلام پیش کرچکے تو ان سرکاری افسر نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ نوح صاحب، بہت خوب، مجھے حیرت ہے کہ آپ غیر ملکی ہونے کے باوجود ہماری اُردو زبان میں اتنی عمدہ شاعری کرتے ہیں۔ نوح ناروی صاحب کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ”جی کیا فرمایا؟ غیر ملکی؟
صدر مشاعرہ نے افسرانہ معصومیت کے ساتھ جواب دیا۔جی ہاں! غیر ملکی!! ناروے کے رہنے والے ہیں نا آپ؟ ایک ناروی کا اُردو زبان میں اتنی اچھی شاعری کرنا کمال ہے کمال۔ یعنی یوروپ کے ملک ناروے کے باشندہ کا۔ واہ واہ
نوح ناروی تو غیر ملکی نہیں تھے لیکن اردو زبان میں غیر ملکی الفاظ تھے۔ لشکری زبان سے ریختہ تک کا سفر اردو زبان نے مختلف انداز میں اختیار کیا اس زبان میں بہت سے غیر ملکی زبانوں کے الفاظ با کثرت استعمال کئے جاتے ہیں اور اس زبان کی ترقی میں بہت سے غیر ملکی لوگوں نے بھی بہت بڑا حصہ لیا اس طرح یہ زبان مختلف قوموں میں بہت جلد رواج پا جاتی تھی۔ برصغیر کے بھی مختلف حصوں میں بولی جانے والی زبانوں کو بہت سے الفاظ اردو زبان میں شمولیت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ یوں یہ زبان برصغیر کے مختلف علاقوں میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ یہ ہی صورت حال پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کے بہت سے الفاظ بھی اردو زبان میں شامل ہو کر اردو زبان کو عام فہم زبان بناتے ہیں اس طرح یہ زبان ہر علاقے میں اور ہر شعبہ میں رچ بس جاتی ہے۔ ایک زمانے میں اردو زبان اپنی مخصوص ساخت کی وجہ سے پہچانی جاتی تھی پھر اس زبان نے عام لوگوں میں بھی فروغ حاصل کرنا شروع کردیا اس طرح ایک طبقہ اردو کو خالص زبان بنانے پر مصر تھا۔ کچھ اس کو عوامی زبان کی حیثیت دینا پسند کرتے تھے ایک بار دہلی میں اردو زبان کا مشاعرہ ہو رہا تھا، اردو کے معروف شاعر مجاز لکھنوی اس مشاعرہ میں موجود تھے۔ ایک معروف شاعر جب اپنا کلام سنانے لگے تو کہا کہ حضرات میں دہلی کے قلعہ معلیٰ کی خاص زبان میں شعر عرض کرتا ہوں۔ جو صرف صاحب زبان ہی سمجھ سکتے ہیں ، ایک دو شعر سنانے کے بعد جب ذرا جوش میں آکر انہوں نے پڑھنا چاہا تو ان کے مصنوعی دانت نکل کر اسٹیج پر گر پڑے۔ مجاز فوراً بولے کہ
حضرات پہلے آپ قلعہ معلیٰ کی زبان کے شعر سن رہے تھے، اب صرف عام زبان کے شعر سنیئے۔
اردو زبان کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ ہر دور میں بولی جانے والی زبانوں سے الفاظ حاصل کرتی رہتی ہے۔ پچھلے دنوں اردو زبان میں ایک ایک لفظ کا بڑا چرچہ ہوا جو ہمارے ایک سیاسی رہنما نے استعمال کیا۔ عمران خان ایک سیاستدان ہونے سے پہلے ایک بین الاقوامی کرکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت موجودہ دور میں جس طرح کرکٹ کا کھیل ہمارے علاقوں میں بہت مقبول سمجھا جاتا ہے اس ہی طرح پچھلے ادوار میں مشاعروں کو بھی بے پناہ مقبولیت حاصل تھی جس طرح کرکٹ کے میچوں کو۔ ان میچوں میں جس طرح مین آف دی میچ کا خطاب دیا جاتا ہے اس ہی طرح شاعروں کو استاد کا درجہ دیا جاتا تھا۔ کرکٹ کھلاڑی ایک خاص عمر تک مقبولیت حاصل کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لیتا تھا، مگر شاعر آخری عمر تک شعر کہتے رہتے اور مقبولیت حاصل کرتے رہتے تھے۔ جس طرح سیاست داں عمر کے آخری حصہ تک سیاستدان رہتا ہے۔ کرکٹ میں جو کھلاڑی چوکے، چھکے مارے وہ بہت مقبول ہو جاتا تھا جس طرح پاکستان کے شاہد آفریدی یا ویسٹ انڈیز کے کرس گیل چوکے، چھکے مارنے میں مشہور ہیں اس ہی طرح پاکستان کے مدثر نذر اور بعد میں مصباح الحق آہستہ آہستہ رن بنانے والے کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں یعنی جو کھلاڑی ٹک ٹک کرکے کھیلے اور بولنگ کے اوور ضائع کرے اور آہستہ آہستہ کھیل کر میچ ہروادے یا برابر کروا دے ایسے کھلاڑیوں کے لئے سیاست دان کھلاڑی جن کو ان ی پارٹی والے کپتان کہتے ہیں۔
عمران خان نے پاکستان میں کھیلے جانے والے پی ایس ایل کے غیر ملکی کھلاڑیوں کے لئے ایک لفظ استعمال ہوا جو اردو زبان کا حصہ بن کر پہلی مرتبہ زبان زد عام ہوا اس لفظ کو پاکستان کے ہر سیاستدان نے اپنے مقصد کے لئے خوب استعمال کیا اس طرح یہ لفظ اردو زبان میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بھی پاکستان کی سیاست میں بھی بے پناہ مقبول ہو گیا۔ یہ لفظ ہے ”ریلوکٹا“۔ کرکٹ میں ریلوکٹا اس کمزور کھلاڑی جو اپنی ٹیم جو جیت دلوانے کی بجائے ہروانے کا باعث ہو، اس دور میں زندگی کے ہر شعبہ کا ایک ہی حال ہے
ہر شاخ پر ریلوکٹا بیٹھا ہے….انجام گلستاں کیا ہوگا
معاشرے کر ہر ایک طبقہ ایک دوسرے پر ریلوکٹا کا الزام لگا کر اس کو نا اہل اور بدعنوان قرار دے رہا ہے، دوسرے پر الزام لگانے کو وہ سو فیصد درست سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو اسی سے مبرا سمجھتا ہے۔ حالانکہ سامنے والا بھی ان پر یہ ہی الزام لگا رہا ہے، عمران خان، آصف زرداری اور نواز شریف کو اس ہی طرح کے الزامات لگا کر انہیں ریلوکٹا قرار دے رہے ہیں جو بالکل درست ہے۔ یہ بھی بالکل درست ہے کہ یہ دونوں فریق عمران خان کو سیاسی ریلوکٹا کے القابات سے نواز رہے ہیں جس طرح یہ بیانیہ دونوں فریقوں پر صادق ہے اس ہی طرح معاشرے کے دوسرے اداروں کا بھی یہ ہی حال ہے۔ عدلیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اسی میں شامل ریلوکٹے معاشرے کے بڑے موثر طبقات میں بہت اعلیٰ حیثیتوں میں براجمان ہیں ملکی اداروں کی تقدیر ان کے حوالے کرکے کاتب تقدیر کی ان پر نظریں جمی ہوئی ہیں کہ معاشرہ کا کیا حال ہوتا ہے۔ حکمران چاہے اقتدار میں ہو یا اختیار میں، ان کی اہلیت کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی ریلوکٹا کی خصوصیات پر بھرپور انداز میں پورے اترتے نظر آتے ہیں۔ ہر آنے والا جانے والے سے زیادہ نا اہل اور ریلوکٹا ثابت ہو رہا ہے۔ پورے معاشرے کی جو تصویر نظر آتی ہے، اس میں جو جاہل ہے وہ بھی اور جو عالم بنا پھر رہا ہے وہ بھی اندر سے ایسے ہی ہیں۔ عالم بھی اندر سے ایسے ہی ہیں، طالب بھی انہی جیسے ہیں۔ کھلاڑی بھی ریلوکٹے ہیں اور ان کو سکھانے والے کوچ بھی ریلوکٹے ہیں۔ معاشرے کے ہر شعبہ کا ایک ہی حال ہے جو جتنے بڑے اور اہم عہدے پر براجمان ہے وہ اندر سے اتنا ہی بڑا ریلوکٹا ہے۔ ہر آنے والا جانے والے سے بڑا ریلوکٹا ثابت ہو رہا ہے۔ معاشرہ تمام تر وسائل کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے، دن بہ دن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے اعلیٰ طبقات میں بھی وہ ہی بگاڑ ہے جس کے اثرات نیچے تک چلے جاتے ہیں۔
سیاست میں قائد اعظم، لیاقت علی خان، ناظم الدین کا موازنہ موجودہ سیاستدانوں سے کیا جائے تو ہمارے سامنے بلاول، مریم اور عمران نظر آتے ہیں ان کا موازنہ نواز شریف، زرداری یا بے نظیر سے کیا جائے تو فرق صاف ظاہر ہے اس ہی طرح اے آر کارنیلین اور رانا بھگوان داس کا تقابل جسٹس قیوم اور جسٹس منیر سے کیا جائے تو یہ بھی ریلوکٹا کے معیار پر پورے اترتے نظر آتے ہیں۔ کرکٹ کے میدان حنیف محمد، فضل محمود اور جاوید میاندان کے مقابلے میں جو کھلاڑی سامنے نظر آرہے ہیں وہ بھی ریلوکٹے فوج کے سپاہی ہیں۔ عالموں میں مولانا تقی عثمانی اور مولانا یوسف اور ڈاکٹر اسرار کے موازنے میں طاہر اشرف، خادم رضوی اور منیب الرحمن ہمارے مذہبی رہنما بنے ہوئے ہیں۔ اس ہی طرح فنکاروں میں فیض، جوش اور یوسفی، معین اختر جیسے نامور حضرات کی جگہ کاشف عباسی، عمران خان اور مبشر لقمان کی ریٹنگ ثابت کرتی ہے کہ یہ اس معاشرے میں کیا مقام رکھتے ہیں۔ جب معاشرے کے اہم شعبوں میں کاشف عباسی، طاہر اشرف، رضوی قیوم اور بلاول عمران مریم جیسے ہر طرف نظر آئیں تو سمجھ لیا جائے کہ آج ہمار اپورا معاشرہ ہی ریلوکٹا بنا ہوا ہے۔ اس میں ہم خود بھی شامل ہیں، جنہیں ہم اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔ اُردو زبان کو ایک اور نیا لفظ مبارک ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں