نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 333

اپوزیشن بے نقاب

پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں بہت ہی بری طرح سے بے نقاب ہو چکی ہیں ان کی کرپشن کی طرح سے ان کی ذاتی مفادات بھی قوم پر عیاں ہو چکے ہیں کہ ان کے نزدیک ملک کی عزت و سلامتی ان کی اپنی ذات سے برتر نہیں ہے اس کا اندازہ قومی اسمبلی میں ان کی ہڑبونگ سے ہر کوئی لگا سکتا ہے کہ کس طرح سے ان تمام سیاسی پارٹیوں نے ملک کے تین اہم قانون سازیوں پر حکومت سے سودے بازی کرنے کی کوشش کی۔ کس طرح سے وہ حکومت کو بلیک میل کرتے رہے کہ جب تک ان کے حسب منشا نیب قوانین میں ترمیمی بل پاس نہیں کیا جاتا اس وقت تک وہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ ایسے کسی بھی بل کی حمایت نہیں کریں گے چاہے ان کا تعلق ملک کی سلامتی اور اس کے قیام سے کیوں نہ ہو۔ یہ ہے ان خودغرض سیاستدانوں کی اصلیت جس سے ماشاءاللہ پوری قوم آگاہ ہو چکی ہے۔ جو قوم کے نمائندے ہیں اور قوم کے ووٹ سے ہی وہ اسمبلی میں پہنچے ہیں تاکہ وہ قوم و ملک کی فلاح و بہبود اور اس کے ترقی کے لئے کوئی قانون سازی کریں؟ لیکن قوم نے کھلی آنکھوں سے اپنے سیاستدانوں کی بدمعاشی دیکھ لی کہ ان کے رہنما اسمبلی میں کسی قومی مسئلے پر دست و گریبان نہیں تھے۔
ان کا مطالبہ یا ان کا مسئلہ تو خود ان کی اپنی ذات کا تھا یعنی انہیں سارا دکھ اور تکلیف اس نیب اور اس کے اختیارات کا تھا جو کسی اور کے خلاف نہیں خود سیاستدانوں یا پھر ان کے اشاروں پر چلنے والے سرکاری ملازمین کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اس لئے سارے سیاستدانوں نے مل کر نیب اور اس کے اختیارات کو ہی بلڈوز کرنے کی کوشش کی اور حکومت کو بلیک میل تک کیا کہ وہ اس وقت تک اپنے ووٹ حکومت کی جھولی میں نہیں ڈالیں گے جب تک حکومت ان کا نیب والا مسئلہ حل نہیں کرتی۔
یہ ایک طرح سے حکومت سے این آر او مانگنے کا انداز تھا یعنی اس حکومتی زہر کو ہی بے اثر کرنا تھا جو نیب کے سخت قوانین کی شکل میں بدعنوان سیاستدانوں کے خلاف استعمال کرکے انہیں ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اس طرح سے کرکے سارے سیاستدان ہی ایک طرح سے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ساری قوم نے دیکھ لیا کہ وہ تمام بل پاس ہو گئے جو ملک کے سلامتی اور اس کی فلاح سے متعلق تھے۔ اس طرح سے حقیقت ہار گئی اور زمینی حقیقت جیت گئی ہمارے ہاں کے سیاستدان لاتوں کے بھوت کی مانند ہیں جو باتو ںسے نہیں مانتے انہیں جب لات پڑتی ہے تب جا کر یہ سیدھے بچوں کی طرح سے کام کرنے لگ جاتے ہیں انہیں ایک تڑی ملی اور سب کے سب لائن پر لگ کر بل پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ یہ ہے ان کی اوقات۔ یہ صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں ان کی اپنی ساری سیاست جھوٹ و مکر و فریب کے گرد گھومتی ہے، یہ خود غرض ہیں انہیں نہ تو قوم کا کوئی دکھ اور نہ ہی ملک کی پرواہ۔ انہیں صرف اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے ہر سیاستدان کا ایک دوسرا گھر دوسرے ملک میں موجود ہے یہاں تک کہ ان کے کاروبار بھی دوسرے ملک میں چل رہے ہیں یہ تو انگریز دور کے وائسرائے کی طرح سے صرف حکومت کرنے کے لئے پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں اس سے زیادہ ان کی پاکستان سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں سارے سیاستدانوں کی بات نہیں کر رہا لیکن میری معلومات کے مطابق بڑے نامور سیاستدانوں کی غالب اکثریت کا یہ ہی حال ہے جس کا تذکرہ کر چکا ہوں یہ معلومات ملک کے حساس اور سلامتی کے اداروں کے پاس بمعہ شواہد کے موجود ہے اسی وجہ سے یہ حرام خور با آسانی قابو میں آ جاتے ہیں یہ دو نمبری لوگ ہی خود کو جمہوریت کے علمبردار بھی کہلواتے ہیں جن کا اعمال نامہ یہ ہے اور یہ ہی پاکستانی قوم کے رہبر بھی خود کو کہلوانا پسند کرتے ہیں اب پڑھنے والے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس قوم کے رہبر اس طرح کے ہوں پھر وہ قوم کس طرح کی ہو گی؟ میں اس کا ذمہ دار کسی حد تک ان لوگوں کو بھی ٹھہراتا ہوں جنہیں کھرے کھوٹے کی تمیز یا پہچان نہیں۔
آخر وہ لوگ کیوں ان دو نمبری لوگوں کو بار بار ووٹ دے کر کامیاب کرواتے ہیں۔ مومن ایک بار ایک سوراخ سے ڈسا جاتا ہے، بار بار نہیں۔۔۔ آکر ہماری قوم کو کیا ہو گیا ہے؟ جو بار با رایک ہی طرح کے سیاستدانوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے رہتے ہیں۔ قوم کو اب جاگنا چاہئے انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جن لوگوں کو رہبر اور اپنا خیرخواہ جان کر ووٹ دیتے ہیں وہی دراصل ان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں انہیں ووٹ دے کر قوم اجتماعی طور پر اپنی قبریں خود اپنے ہاتھوں کھود رہے ہیں۔ قوم کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے وزیر اعظم عمران خان نے روز اول سے این آر مانگنے کا جو الزام ان سیاستدانوں پر لگایا تھا وہ غلط نہیں تھا۔ پہلے یہ سیاستدان غیر محسوس طریقے سے این آر او مانگ رہے تھے لیکن اب وہ ننگے ہو گئے ہیں اور کھل کر اور حکومت بلیک میل کرکے این آر او مانگ رہے ہیں۔ اب سارے پتے کھل گئے ہیں اس لئے پاکستانی قوم کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے انہیں دوست اور دشمن میں فرق کرنا چاہئے اسی میں خود ان کی اور وطن کی سلامتی و فلاح مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں