کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کی سلامتی کے لئے سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے۔۔۔؟ کیا سعودی عربیہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل کروانے میں کسی کے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے؟ ان ہی سوالوں کے گرد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سال نو پر پاکستان کو دی جانے والی پہلی دھمکی اور سعودی عرب میں میاں برادران کی پراسرار موجودگی گھوم رہی ہے۔ امریکی صدر کی دھمکی کو سعودیہ کوشش کی ناکامی سے تشبیہہ دی جارہی ہے۔ ان سوالوں کے ممکنہ جوابات کو ہی آج کے کالم کا عنوان بنانے جارہا ہوں۔ کالم کی ابتداءکرنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ 2018ءکا سال مملکت پاکستان کے لئے ایک فیصلہ کن سال ثابت ہوگا۔ یہ سال یہ فیصلہ کرے گا کہ پاکستان چٹان بن کر طوفانوں کا رُخ موڑے گا یا خود خاک و خاشاک بن کر طوفان کا شکار ہو جائے گا۔ اس تناظر میں 2018ءکا سال پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، یہ بات تو ساری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرلی ہے اب وہ امریکی بلاک سے نکل کر چین اور روس کے بلاک میں شامل ہوگیا ہے جس کی وجہ سے وہ امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لارہا ہے اور نہ ہی ان کے ڈومور کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ امریکی دھمکیوں کی بوچھاڑ کے بعد بھی جب پاکستان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تو امریکہ نے سعودی عرب کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ کسی بھی طرح سے پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کو لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کردے جس کے بعد سے پراسرار طور پر پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو سعودی عرب کے خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب پہنچا دیا گیا اور اس کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سعودی عرب بلایا گیا گرچہ ان پراسرار ملاقاتوں کی کوئی سرکاری تفصیل سامنے نہیں آسکی لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی حکومت نے شہباز شریف اور نواز شریف کو یہ پیشکش کی ہے کہ وہ انہیں اس موجودہ قانونی مشکلات سے اس شرط پر چھٹکارہ دلا سکتے ہیں کہ وہ پاکستان میں محاذ آرائی کی سیاست ختم کروائیں اور شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کروائیں اور پارلیمنٹ سے اس طرح کی قانون سازی کروائیں کہ پاکستانی فوج یمن اور دوسرے محاذوں پر سعودیہ کی مدد کرے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رُخ موڑ کر امریکہ سے دوبارہ دوستانہ اور اعتماد کے رشتے کو بحال کروائیں۔۔۔! یہ اڑتی اڑتی اطلاعات ہیں، کسی بھی فریق کی جانب سے اس کی باضابطہ تصدیق نہیں ہو سکی لیکن امریکی صدر کے سال نو کے موقع پر پاکستان کو دھمکی دینے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکہ سعودی عرب کی حالیہ کوششوں سے مطمئن نہیں ہوا اس لیے انہیں ایک بار پھر پاکستان کو دھمکی دینا پڑی جس پر پاکستان کی جانب سے بھی سخت ترین ردعمل آیا اور پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کرکے صدر ٹرمپ کے بیان پر احتجاج کیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے سال نو کے موقع پر مس فائر کیا ہے، انہیں اس طرح کا لب و لہجہ شمالی کوریا کے ساتھ اپنانا چاہئے تھا جس نے سال نو پر ہی امریکہ کو خطرناک دھمکی دی ہے کہ ان کے پاس وہ سارے ایٹمی وسائل موجود ہیں جس سے وہ امریکہ پر حملہ کرسکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے صدر کا کہنا ہے کہ ایٹمی میزائل کا بٹن ان کے دفتر میں نصب ہے۔ کم جونگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ محض دھمکی نہیں بلکہ اٹل حقیقت ہے، سال نو کے موقع پر اس طرح کے دھمکی آمیز بیانوں سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے۔ اس سال بیان بازیوں کے ذریعے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جائے گی۔ پاکستان 2017ءکی طرح سے اس سال بھی عالمی خبروں کی زینت بنے گا۔ پاکستان کی مدد سے خطے میں روس اور چین کا اثر تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے جو امریکہ کے لئے بالخصوص اور بھارت کے لئے بالعموم پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ بھارت اب سری لنکا پر بھی دباﺅ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنی بندرگاہ کی چین کے ساتھ 99 سالہ لیز کو فوری طور پر منسوخ کردے لیکن سری لنکا کی حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ خطے میں پاور پالیٹکس کی تبدیلی سے تیسری عالمی جنگ کی صورت حال پیدا ہوتی جارہی ہے۔ امریکہ ہر حال میں جنوبی ایشیا میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لئے اس نے جن دو ملکوں کا سہارہ لیا ہے وہ اتنے توانا نہیں کہ پاکستان کی طرح سے وہ امریکہ کا بوجھ اٹھا کر کسی بڑے ملک سے مقابلہ کرسکے، اس وجہ سے اس محاذ پر امریکہ مسلسل پسپائی اختیار کرتا جارہا ہے جب کہ چین اور روس کا غلبہ تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں شمالی کوریا کی امریکہ کو للکار بھی معنی خیز ہے حالانکہ بظاہر کسی بھی بڑے ملک کی شمالی کوریا کو حمایت حاصل نہیں ہے۔
ذکر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہو رہا تھا جو عرصے بعد نہ صرف آزاد بلکہ خود مختار اور ریاستی مفادات کے عین مطابق ہو گئی ہے، اسی خارجہ پالیسی کے نتیجے میں سی پیک جیسے گیم چینجر معاہدے کئے گئے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا جس کی وجہ سے دشمنوں کی نیندیں حرام ہوگئی اور اب وہ کسی طرح سے پاکستان پر پراکسی وار مسلط کرکے وہاں انارکی پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ سی پیک کا منصوبہ سبوتاژ ہو جائے اور چین اور روس کا غلبہ اس خطے تک نہ پہنچ سکے، اسی وجہ سے بھارت اور افغانستان کے ذریعے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کروائی جارہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کروانے کے بعد خود پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا مضحکہ خیز الزام لگا کر ایک طرح سے اپنے حامی دہشت گردوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرے خیال میں حقیقت سب پر واضح ہے۔ سعودی عرب برادر اسلامی ملک ہے، انہیں پاکستان کی فلاح و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہیں ان سیاستدانوں کا سہولت کار نہیں بننا چاہئے جن پر خود ملک دشمنوں کے آلہ کار ہونے کے الزامات ہیں۔
829