عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 116

ایک پوسٹنگ۔۔۔!

پاکستان کی ساری سیاست ہی ان دنوں ایک بڑی پوسٹنگ کے گرد گھوم رہی ہے، تھانہ پٹواری کلچرل کے بعد اب اس بہت بڑی پوسٹنگ کو بھی ملک کے گملے کے پودے نما سیاستدانوں نے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ پاکستان کے سیاستدان اور جمہوریت ایک تماشہ بن کر رہ گئی ہے اور اس صورتحال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک پوسٹنگ پاکستان کے جمہوریت اور سیاسی کلچرل پر کس قدر حاوی ہے کہ ہر سیاستدان اس پوسٹنگ میں کسی نہ کسی طرح سے اپنا حصہ ڈالنے کو ترجیح دے رہا ہے اس ایک پوسٹنگ کو اتنا بڑا ایشو بنوا کر پاکستان کے سیاستدان خود اپنے کو ڈی ویلیو کررہے ہیں اور عالمی دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ ملک کے 22 کروڑ عوام نہیں بلکہ یہ ایک پوسٹنگ ہے گرچہ اس بات میں کافی وزن ہے اور یہ بات پوری طرح سے زمینی حقائق سے مطابقت رکھتی ہے مگر اس کا اس قدر اہتمام کے ساتھ پرچار کرنا نہ تو ملک کے لئے بہتر ہے اور نہ ہی جمہوریت اور سیاسی نظام کے لئے۔۔۔
اس طرح کی پوسٹنگ کو اتنی اہمیت دینے کے بجائے ان کی حیثیت پر نہ صرف بات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ خود ان کو اور عالمی دنیا کو بھی انہیں اس کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔
میں ابتدائی سطور میں لکھ چکا ہوں کہ وہ سیاستدان اس پوسٹنگ کو اہمیت دے رہے ہیں جن کی حالت گملے کے پودوں والی ہے یعنی جن کی جڑیں عوام میں نہیں ہے۔ نچلی سطح پر انہیں انتخابات میں کامیابی کے لئے تھانہ اور پٹواری کی سطح پر پوسٹنگ کروانے میں دسترس حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ ان کی پوری سیاست کا انحصارہی پولیس افسروں اور بیوروکریسی میں اپنی مرضی کی پوسٹنگ کروانے پر ہوتی ہے اور اس سطح پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکومت سازی اور اپنی حکومت کو خطرا سے بچانے کے لئے ملک کی اس اہم ترین پوسٹنگ کی حمایت کی ہی انہیں ضرورت پڑتی ہے یعنی اس اہم ترین پوسٹ پر براجمان شخصیت کی۔۔۔
یہ ہے پاکستانی سیاست پاکستانی جمہوریت اور پاکستان کی آزاد صحافت کا المیہ۔۔۔؟ ہر کوئی اس اہم ترین پوسٹنگ پر بات تو ضرور کرتا ہے مگر اس کے حل کے بارے میں کوئی مشورہ یا تجویز نہیں دیتا کہ ہمارے سیاستدانوں کو اس سرجوڑ کر اس معاملے کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل تلاش کر لینا چاہئے۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی سراج نے بہت ہی اچھی اور عمدہ تجویز دی ہے کہ جس طرح سے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے چیف جسس آف پاکستان کی پوسٹنگ یا تقرری کو سیاست سے پاک رکھنے کے لئے ایک رولنگ کے ذریعے اپنا مسئلہ حل کرلیا اور اب خودبخود جو جج سینئر ہوتا ہے وہی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بن جاتا ہے اس کے بعد سے سپریم کورٹ کے معاملات سے حکومتی مداخلت کا سلسلہ کسی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ اسی طرح سے ملک کی اس اہم ترین پوسٹنگ کے حوالے سے یا تو وہ ادارہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرے یا پھر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کہ اس معاملے کا حل بھی اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے تقرری کی طرح سے نکال لے یعنی جو بہترین ترین ہو اسے ہی وہ اہم ترین منصب دے دیا جائے۔ حکومتی مداخلت کا دروازہ ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا جائے کیونکہ یہ وزیر اعظم یا کسی بھی سیاستدان کا استحقاق نہیں ہونا چاہئے کہ اس اہم ترین پوسٹنگ پر کس کی تقرری کی جائے۔ ایک پوسٹنگ کی وجہ سے پوری کی پوری حکومت ہی اس وقت قومے میں آچکی ہے کہ کریں تو کیا کریں، کس کی پوسٹنگ کریں اور کس کی نہ کریں۔۔۔؟
وزیر اعظم اتنے بے اختیار ہیں کہ حکومتی امور کے لئے انہیں ایک سزا یافتہ مجرم سے مشورہ کرنےکے لئے بار بار لندن جانا پڑتا ہے اور حیرت ہے ہماری عدلیہ کو اس پر ذرا بھی نہ تو غصہ آتا ہے اور نہ ہی اپنے ہی عدالت سے کئے جانے والے فیصلے کی پاسداری کا انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ خود ہی سوموٹو لے کر اس طرح سے کرکے ملک کا وزیر اعظم اپنی اعلیٰ عدلیہ کے جاری کردہ فیصلوں سے متعلق قوم کو کیا میسج دے رہا ہے کہ ایک سزا یافتہ شخص پاکستان کے اتنے بڑے بڑے فیصلے کررہا ہے بقول خواجہ آصف کے کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں