بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 283

اے وطن کے سجیلے جوانو! ۔۔۔۔ میرے نغمے تمہارے لئے ہیں

یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان بھی پاکستانی فوج کے دیگر اداروں کی طرح فوج کا ہی کوئی ادارہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فوج بھی ہماری ہے اور فوج کی اہمیت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک کا دفاعی نظام کمزور ہوا وہ برباد کردیئے گئے یوں پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا پاکستان کو کوئی ایک مشکلات سے بچائے ہوئے ہے مگر یہ بھی نہایت غلط ہے کہ فوج پر تنقید گناہ عظیم تصور ہو اور اسے غدار وطن قرار دے دیا جائے کہ جو فوج پر تنقید کرے۔ دراصل فوج کی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعہ فوج کو مقدس گائے بنا دیا گیا ہے یقیناً ہمارا عام فوجی سپاہی وطن عزیز کے لئے کھیتوں، کھلیانوں، پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں پر کھڑا ہماری حفاظت کرتا ہے مگر دوسری جانب فوج کے اعلیٰ عہدیدار اُن کی اس قربانی کو خراج روز بروز اپنی مراعات میں اضافہ کرکے وصول کررہے ہیں۔ وطن عزیز کا 60 فیصد معاشی نظام فوج چلا رہی ہے۔ فوج کے ادارے این ایل سی نے پاکستان ریلوے کی مال بردار گاڑیوں کا کاروبار ٹھپ کردیا ہے ہاں البتہ این ایل سی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ اسی طرح ملک کے اکثریتی ادارے یا تو فوج کے کنٹرول میں ہیں یا پھر پرائیویٹ کارپوریشنز تک پر فوج کے ریٹائرڈ افسران براجمان ہیں۔ اب تو غیر ملکی سفارت خانوں میں بھی فوج کے جرنلوں کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ یوں پاکستان کا سویلین حقیقی معنوں میں بلڈی سویلین بن چکا ہے اور فوج کے جنرل کا احتساب ممکن ہی نہیں۔ روز بروز دولت مند بنتے جارہے ہیں یوں پاکستان نام نہاد جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ وہ ہمارے فوجی جرنلوں کے پیچھے کھڑی رہے اور بظاہر یوں نظر آئے کہ ملک میں جمہوری ادارے مضبوط ہیں اور اپنے فیصلہ خود کررہے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہمیں سوچنا ہو گا کہ حکومت اور فوج برابری کی بنیادوں پر کس طرح مل جل کر کام کر سکتے ہیں۔ یوں ملک کی معیشت بھی مضبوط ہو گی، ملک کا دفاع بھی مضبوط ہو گا، آج کی صورتحال میں تو فوج کو جنگی مشقیں کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ فوج کو کسی جنگ کا خدشہ نہیں اور نہ ہی موجودہ فوجی قیادت خود کو کسی جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہے۔
نہ جانے کہاں گئے وطن کے وہ سجیلے جوان جن کے لئے ملک ترنم نورجہاں نے ڈھیروں نغمہ گائے اور فوجیوں کے جوش و ولولے کو بڑھایا مگر موجودہ فوج یا فوجی سربراہان خود کو جنگ سے دور رکھتے ہوئے حکومت کے ذریعہ دنیا بھر سے مذاکرات کو فروغ دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں