تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 780

بنت سرزمین

فلائٹ کی روانگی میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی۔ بظاہر کوئی ٹیکنیکل خرابی بھی نہیں تھی، اس پر زیادہ تر مسافروں کا تعلق بیرونی ممالک کے سفارت سے تھا اس کے علاوہ ملکی وزیر، سفیر اور اعلیٰ عہدیدار بھی تھے۔ ایئر لائن کے چیئرمین بھی ان مسافروں میں شامل تھے۔ معلوم ہوا مقامی یونین کا معمولی کارکن جس کا تعلق ایئر لائن سے ہی تھا ایک سیٹ پر زبردستی قبضہ کئے بیٹھا ہے جو کہ کسی کنفرم مسافر کی تھی جب کہ خود اس کے پاس چانس کا ٹکٹ تھا۔ اس ہی یونین کا معمولی رکن کسی بھی اعلیٰ عہدے دار ایئر لائن کے ڈائریکٹر یا ایم ڈی سے بھی بدتمیزی اور بدسلوکی کو اپنی شان سمجھتا تھا یہ تو حال تھا ایک جانب یونین کے نمائندوں کا جو ملازمین کے ووٹ کا اس طرح استعمال کررہا تھا۔ ضیاءالحق کی منحوس آمریت کا دور دورہ تھا۔ یونین کی انہی حرکتوں پر ایئرلائن میں بھی مارشل لاء52 نافذ کردیا گیا۔ اختیارات فوجی عہدیداروں کے حوالے کردیئے گئے۔ کچھ ملازمین کو ملک دشمن جماعت کا رکن بنا کر کوڑے مارے گئے اور بہت بڑی اکثریت کو ایئرلائن سے نکالا دیا گیا۔ باقی بچے ہوئے ملازمین سے بیگار لیا جانے لگا اور خود سیاہ سفید کے ذمہ دار بن گئے۔ ہم جیسے ملازمین دو پاٹوں کے درمیان آگئے جو پہلے ہی یونین کی زیادتی کا شکار ہوئے اب ان جابر عہدے داروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ یوں ہم نے جوانی کا بیشتر حصہ یونین کے عہدے داروں کی زیادتی کے خلاف مزاحمت میں گزارا پھر جابر اور جاہل عہدے داروں کے خلاف یہ سب ان لوگوں کو بھی سہنا پڑ رہا تھا جو ملک کے دوسرے اداروں میں یا مجموعی طور پر پورے ملک میں ہم جیسے اس ہی رویہ کا شکار ہو رہے تھے۔ اس رویہ کا شکار ہمارے بھائی صاحب جو پی ٹی وی میں اپنی ذہانت، لیاقت کے باعث ان ہی حالات کا شکار ہوئے۔ ایک پروگرام میں ایک کتاب کا تعارف کروانے کی بناءپر عتاب کا نشانہ بن گئے کیونکہ اس وقت ضیاءالحق کی آمریت میں اطلاعات کا شعبہ جنرل مجیب الرحمن کے پاس تھا اس ہی زمانے میں عاصمہ جہانگیر اپنی جواں عزمی کی بناءپر اپنی بہن سمیت پابند سلاسل ہوئیں اس دور سے ہی عاصمہ جہانگیر ہمارے لئے رول ماڈل بنی ہوئی ہیں۔ جنہوں نے مختلف ادوار میں اپنی جہد مسلسل کو جاری رکھا۔ جس سے ہم جیسے لوگوں کے لئے امید کی کرن بن کر راستہ دکھاتی رہیں ہم بھی شعور کی منزلیں طے کرتے رہے۔ اور ہمارے لئے اس راہ پر چلنا آسان ہوتا چلا گیا کہ معاشرے میں کچھ ہی افراد ہوتے ہیں جو ایسے کاموں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔ جو دو مختلف محاذوں پر ڈٹ جائیں۔ بڑا انسان اپنی ان خوبیوں کے باعث بڑا بنتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہوں اور بعد میں وہ خود ان کو بڑھانے کے لئے سعی کرتا ہے اس میں وہ اصولوں پر اپنی زندگی گزارتا ہے جس کے لئے اس کو اپنی ذات کے حوالے سے قربانیاں بھی دینا شامل ہے۔ کسی ایسے معاشرے میں بے پناہ چور راستے ہوں وہاں سیدھے راہ پر چلنے والے ولیوں کی راہ کے مسافر ہوتے ہیں۔ وہ خود ان اصولوں کی خاطر قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے بلکہ اپنی آنے والی نسل کو بھی اس راہ پر چلتے رہنے کی تلقین کرتے ہںی۔ عاصمہ جہانگیر اور ان کی بہن بھی ایک بڑے باپ کی اولاد ہیں۔ ہمارے معاشرے بہت کم مثالیں ہیں کہ ایک نسل کے بعد آنے والی نسل بھی قربانیوں کے سفر پر چلتے ہوئے مثالیں قائم کریں۔ سچ کے لئے تکالیف کا سامنا کرنا ہوتا ہے اس میں بھی استقلال کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کو ان مراعات کو بھی ٹھکرانا پڑتا ہے جس کے لئے دوسرے بھوکے ہوتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے اپنی ماضی سے ثابت کیا کہ انہوں نے سچ کی خاطر کیا کیا قربانیاں دیں اور حالیہ زمانے میں جس طرح مراعات کو ٹھکرایا وہ تو آج کل کے دور میں اپنی مثال آپ ہے۔ قوم کی بیٹی عاصمہ جہانگیر جیلانی نے گزرتی ہوئے ہر وقت کے قوم کو سچائی کے لئے تیار کرنے کے لئے جو قربانیاں دیں انہوں نے ان تمام جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ خیر بلند کیا چاہے وہ حکمراں جمہوری حکمرانیت کے نام پر یا غیر جمہوری حکمرانیت کے مرتکب ہوئے جب بھی کوئی طاقتور حکمراں آیا سیاست دانوں اور عدلیہ یا معاشرے کی نام نہاد اشرافیہ نے ان حکمرانوں کو خوش آمدید کہا مگر عاصمہ جہانگیر جیسے چند ہی افراد ان سب کے آگے ڈٹ گئے اور ہمیشہ کلمہ خیر بلند کیا۔
غم انسانیت رکھا ہے دل میں
نظام جبر کا باغی رہا ہوں
عاصمہ جہانگیر نے موجودہ اشرافیہ کو خبردار کیا ہے اب جو حکمراں آیا وہ جنرل مجیب الرحمن بن کر ہی سلوک کرے گا۔ وہ اب موجودہ اشرافیہ کے رویہ کو جواز بنا کر وہی سلوک کرے گا وہ جنرل پرویز مشرف نہیں ہو گا بلکہ وہ جنرل ضیاءالحق ثابت ہوگا جنرل ضیاءالحق نے ایک کو پھانسی دی باقی کے لئے کوڑے، اب جو آئے گا وہ پھانسیاں ساتھ لائے گا اب صرف گڑھی یاسین میں ہی خبریں نہیں بنیں گی بلکہ ہر علاقے میں ان کی آبادی کے تناسب سے یہ کام ہوگا۔ پھر ان جیسے حکمرانوں کا مقابلہ صرف عاصمہ جہانگیر کے فکر و فلسفہ پر عمل کرنے والی ہی کریں گے اور عوام کی اکثریت یہ سوچنے پر حق بجانب ہوگی کہ عاصمہ جہانگیر کی وارننگ بالکل درست تھی موجودہ اشرافیہ کو قبرستان کے انجام سے بروقت آگاہ کرنے میں اپنا حق ادا کردیا۔ حق گوئی اور بے باکی کی راہ اختیار کرکے حضرت اسمائؓ کی روایات کو زندہ رکھا اور حکمرانوں کو اپنے رویہ بدلنے کا مشورہ دیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں