عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد اور بھارت کے مبینہ جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست پر سماعت کے دوران جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ کلبھوشن نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں وکیل کی سہولت حاصل کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ بھارت نے ان کی نظر ثانی اپیل پر اپنا وکیل پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اورجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تین رکنی لارجر بینچ کے سامنے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ پیش ہوئے جبکہ سینیئر وکیل حامد خان بطور عدالتی معاون موجود تھے۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے لیگل پریکٹشنر قانون میں غیر ملکی وکیل کی گنجائش نہیں اور بھارت میں بھی قانونی طور پر ایسا ممکن نہیں تو پھر وہ کیوں پاکستان سے ایسی غیر قانونی توقع کر رہا ہے۔
انہوں نے جمعرات کو انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال پر واضح کیا کہ بھارت کا اپنا قانون ایڈوکیٹ ایکٹ 1961 موجود ہے جس کے مطابق کوئی باہر سے وکیل آ کر مقدمہ نہیں لڑ سکتا اور بھارت کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک فیصلہ دیا کہ کوئی غیر ملکی بھارت میں کیس نہیں لڑ سکتا، پاکستان میں بھی یہی قانون ہے لہٰذا بھارت کے مطالبے پر عمل ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کلبھوشن پاکستان کے جس مرضی وکیل کا انتخاب کر لیں انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ بنیادی طور پر نظر ثانی درخواست میں عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ پہلی بار جو قونصلر رسائی نہیں دی گئی تھی تو ایسا کیوں ہوا اور تب کیا معاملہ پیش آیا تھا اور اب چونکہ قونصلر رسائی دے دی گئی ہے تو وفاق کی نظر میں کوئی تعصب موجود نہیں لیکن بہرحال فیصلہ اب عدالت نے کرنا ہے۔
آج سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ‘کیا ہمارے گذشتہ آرڈر پرعمل درآمد ہو گیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکم سے متعلق بھارتی حکومت اورکلبھوشن یادو کو آگاہ کر دیا تھا لیکن بھارت نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور کلبھوشن نے بھی وکیل مقرر کرنے اور تیسری نظرثانی درخواست سے انکار کر دیا۔
اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ حکومت کو بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا، پاکستان اس کیس میں بین الاقوامی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کررہا ہے جبکہ بھارت اس سے بھاگ رہا ہے اور نظرثانی کے معاملے پر رکاوٹ بن رہا ہے۔
انہوں نے استدعا کی کہ عدالت کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کرنے کا حکم دے، دوسرے آپشن کے طور پر بھارت کے جواب کا مزید انتظار کیا جا سکتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر بھارت یا کلبھوشن اس سہولت سے فائدہ ہی نہیں اٹھاناچاہتے تو پھر نظرثانی پٹیشن کا سٹیٹس کیا ہو گا؟ نظرثانی کا معاملہ موثر ہونا چاہیے، کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ فیئر ٹرائل کے اصولوں کے تحت بھارت کو دوبارہ پیشکش کی جائے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ متفق ہیں کہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے پر عمل کے لیے بھارت کو ایک اور موقع دیا جائے۔ عدالت نے بھارت کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم نامہ ارسال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت چھ اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
455