عمران خان توجہ فرمائیے! 374

تحریک لبیک پاکستان یا پریشر گروپ!

انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سیاسی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان 2015ءمیں معرض وجود میں آئی۔ اس جماعت کے پہلے امیر علامہ خادم حسین رضوی مقرر ہوئے اس جماعت کا ہیڈ آفس مسجد رحمت العالمین چوک یتیم خانہ بند روڈ لاہور پر ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی شروع سے ہی اپنی شعلہ بیانی کی وجہ سے شہرت پا چکے تھے۔ جہاں ان کے خطابات میں عشق رسول کی واضح جھلک نظر آتی تھی وہیں ان کی شعلہ بیانی اس حد تک بڑھ جاتی تھی کہ وہ دوران خطاب گالی گلوچ پر اتر آتے تھے۔ بنیادی طور پر یہ جماعت اہلسنت فقہ کے لوگوں کی ترجمان ہے۔ پاکستان میں اہلسنت فکر کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ اسی نقطہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے خادم حسین رضوی نے اہلسنت مکتبہ فکر کے علماءکو ایک چھتری تلے اکھٹا کیا اور اکثر اپنے جمعہ کے خطابات میں حکومت اور اپوزیشن سب کو سخت الفاظ میں ہدف تنقید بنانا شروع کردیا۔ اور ان کے خطابات کی وڈیوز دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ پڑھے لکھے اور معتدل حلقوں نے کبھی بھی علامہ کی سوچ، انداز خطابت اور گالم گلوچ کے بیانیے کو قبول نہیں کیا۔
آپ کو یاد ہو گا ممتاز قادری جو کہ ایک پولیس کانسٹیبل تھا اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور تھا۔ اس نے شان رسول کی گستاخی کا مرتکب گردانتے ہوئے گورنر کو اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔
اس واقعہ کے بعد ہی بریلوی فقہ کے علماءاور ہمدردوں نے اس معاملے کو اٹھایا اور گورنر کی ہلاکت کو جائز قرار دیا اور ممتاز حسین قادری عاشق رسول بن کر اُبھرا۔ اس کے خلاف قتل کا مقدمہ چلا اور بالاخر اسے سزائے موت دے دی گئی۔ اسی دوران یہ جماعت بھی منظرعام پر آئی، بہت بڑے پیمانے پر شہر شہر عوامی مظاہرے ہوئے، ہماری قوم نبی کے لئے ہمیشہ سے بڑی جذباتی رہی ہے اور انہوں نے انگریزوں کے دور میں بھی عشق رسول کا علم بلند کئے رکھا۔
الحمدللہ ایک مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نبی کریم کی ذات اقدس ہمیں ہر شے سے پیاری نہ ہو جائے، ہم سب کچھ قربان کرکے بھی نفع میں رہتے ہیں اور جب کوئی آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو ہمارے دلوں کو سخت چوٹ پہنچتی ہے، ہم رنجیدہ ہوتے ہیں لیکن ہمارا بس نہیں چلتا۔
حالیہ واقعات فرانس میں ہونے والے ایک واقعہ کے نتیجے میں ہو رہے ہیں کچھ ماہ پہلے ایک عاشق رسول نے خاکے بنانے والے ایک شخص کو ہلاک کردیا تھا یہ واقعہ فرانس سمیت دنیا بھر میں بڑا سنجیدہ لیا گیا اور مغرب نے اسے آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا۔ عاشق رسول کو بھی بعد میں مار دیا گیا لیکن فرانس کے صدر کے زیر سرپرستی دوبارہ گستاخی کی گئی اور عمارتوں پر آپ کے خاکے بنا کر چلائے گئے جو کہ سرکاری سطح پر ہو رہا تھا۔ جس کی مسلمان ممالک نے مذمت کی مگر ترکی اور پاکستان کے علاوہ کسی نے بھی اس پر شدید ردعمل ظاہر نہ کیا۔
خیر یہ معاملہ آہستہ آہستہ دنیا بھر میں تھم گیا مگر پاکستان میں اسی واقعہ کو وجہ بنا کر تحریک لبیک نے اسلام آباد میں دھرنہ دے دیا اور حکومت کے سامنے مطالبہ رکھ دیا کہ پاکستان فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرے اور فوری طور پر اس کے سفیر کو ملک بدر کرے۔ اس پر مذاکرات ہوئے، سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ دیا۔
اس کے نتیجے میں حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مختصر سا معاہدہ ہوا کہ ہم ایک قرار داد قومی اسمبلی میں لائیں گے اور اس کے پاس ہونے کی صورت میں سفیر کو نکالنے کا فیصلہ کریں گے۔ یہی اہم شق ہے اس معاہدہ کی۔ اس میں تین ماہ کا وقت دیا گیا۔ اس دوران پاکستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا رہا لہذا قرار داد پیش نہ ہو سکی، دوبارہ مذاکرات کے نتیجے میں مزید وقت لیا گیا جو کہ 20 اپریل کو ختم ہو رہا تھا۔ اسی دوران خفیہ ایجنسیوں نے حکومت کو مطلع کیا کہ ٹی ایل پی والے ایک طرف تو مذاکرات کررہے ہیں اور دوسری طرف اسلام آباد آنے اور دھرنہ دینے کی تیاریاں کررہے ہیں جس پر موجودہ امیر سعد رضوی کو نقص امن عامہ میں گرفتار کر لیا گیا جونہی اس کی گرفتاری کی خبر نشر ہوئی پاکستان بھر میں ٹی ایل پی کے حامیوں سمیت عام شہریوں نے مظاہرے شروع کردیئے، جگہ جگہ روڈ بلاک کردیئے گئے، موٹر ویز بلاک کردی گئی۔ مظاہرین اور پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کئی پولیس اہلکار شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اسی طرح ٹی ایل پی کے لوگوں کو بھی نقصان ہوا، گھیراﺅ، جلاﺅ ہوا، لوگوں کی جائیدادوں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
تازہ ترین صورت حال کے مطابق ٹی ایل پی کے حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں جو کہ بے نتیجہ رہے اسی دوران دہشت گردی ایکٹ کے تحت ٹی ایل پی کو کالعدم جماعت قرار دے دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے قوم سے کہا ہے کہ عشق رسول ہم سب کے اندر برابر ہے اور جو ممالک اس میں گستاخی کرتے ہیں ہمیں ان کو سمجھانا ہو گا کہ جب آپ اس طرح کی حرکت کرتے ہیں تو ہمارا دل کتنا دکھتا ہے۔ ٹی ایل پی اور میرا مطالبہ ایک جیسا ہی ہے مگر طریقہ مختلف ہے۔ ہم کبھی بھی دھونس سے اور تشدد سے اپنا مطالبہ نہیں منوا سکتے، ہمیں تمام اسلامی ممالک کو اکھٹا کرنا ہو گا اور یک زبان ہو کر مغرب سے مطالبہ کرنا ہو گا کہ اس کے خلاف قانون بنایا جائے جس طرح یہودیوں کے لئے ہولوکاسٹ پر بات کرنے پر بنایا گیا ہے۔
ٹی ایل پی طرز کی سیاسی مذہبی جماعتیں جن میں جماعت اسلامی، جے یو آئی وغیرہ شامل ہیں یہ صرف اور صرف پریشر گروپس ہیں ان کی عوام میں پذیرائی کا اندازہ انتخابات میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں ان تینوں جماعتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے بہرحال حکومت کو بڑی فہم و فراست اور تدبر سے اس مسئلہ کو حل کرنا ہو گا کیوں کہ ہمارا دشمن بھی اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ پاکستان میں سول وار شروع ہو چکی ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اس فتنہ کو فوری ختم کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں