تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 280

تزکیہءنفس

جدہ میں امیگریشن کی وجہ سے فلائٹ تاخیر کا شکار ہو کر اسلام آباد بھی دیر سے پہنچی وہ ہی جہاز اسلام آباد سے کراچی جانا تھا، اس پر اسلام آباد سے کچھ حاجیوں کو کراچی کی فلائٹ سے جدہ کے لئے روانہ کرنا تھا جس کی وجہ سے اسلام آباد میں بھی فلائٹ تاخیر کا شکار ہوئی۔ اسلام آباد کے حاجیوں کو کراچی کے جہاز سے جدہ روانہ ہونا تھا۔ اس لئے کراچی کے جہاز کو تاخیر کا شکار کیا گیا یوں کراچی سے روانہ ہونے والے حاجیوں میں بے چینی شروع ہوئی اس میں سے کچھ لوگ اپنے گھروں سے احرام باندھ کر آئے تھے، کچھ نے ایئرپورٹ پر تبدیل کیا، کچھ لوگ میقاد سے تیار ہوکے جانا تھا تمام مسافروں کی ناشتہ سے خدمت کی گئی مگر کچھ عازمین کو زیادہ ہی بے چینی لگی ہوئی تھی، پہلے تو انہوں نے دبی زبان سے احتجاج کرنا شروع کردیا پھر انہوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ لاﺅنج میں شور سن کر اپنے اسٹاف کی مدد کے لئے پہنچا۔ پہلے تو مسافروں مجھے اس تاخیر کا ذمہ دار قرار دے کر برا بھلا کہنا شروع کردیا پھر دھکے دینا شروع کر دیئے۔ ہماری ٹریننگ ہماری ایئرلائن کے ابتدائی دور کے مشاق انسٹرکٹروں کے ذریعہ ہوئی تھی جس میں ہمیں اس طرح کے حالات میں کس طرح مسافروں کی بدسلوکی کا سامنا کرتے ہوئے انہیں مطمئن کرنا ہوتا ہے ہم انہیں نہایت نرمی سے سمجھاتے رہے مگر جب بات ہمارے ساتھیوں کو برا بھلا کہنے سے آگے ایئرلائن اور پاکستان تک پہنچی تو ہم نے اپنی گھریلو تربیت کا سہارا لے کر سمجھا شروع کیا کہ وہ جس بابرکت مقام کے مسافر ہیں وہ مقام جو دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے اس مقام پر دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے اس مقام پر دنیا بھر سے زائرین آکر اس مقام پر اپنے رب کے حضور حاضری دیتے ہیں اس مقام کی حرمت اور حفاظت اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے اس کی حرمت پر تمام مسلمان اپنا سب کچھ لٹانے کے درپہ رہتے ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں دنیا اور آخرت کے محسن انسانیت کا ظہور ہوا تھا اس مقام کی خصوصیت کی وجہ ہے۔
دھوپ کی شدت اور تمازت سے سیاہ چٹانیں جہاں پر پانی کا ایک قطرہ بھی نہ ہو جہاں سبز پتوں کا وجود تک نہ ہو اس کی تمازت آتش نمرود کی مانند ہو جہاں ذرات کے کنکر نوکیلے کانٹوں سے زیادہ مہلک ہوں اس میں چلنے والی گرم غبار ہوا ایک سراب کی مانند ہو جہاں سنگلاخ چٹانوں کے درمیان ایک گھاٹی ہو جس کی تمازت تندور کی طرح ہو جہاں انسان تو کجا چرند پرند کی پہنچ نہ ہو مگر آج اس ہی مقام کی توقیر و منزلت یہ ہے کہ دنیا جہاں سے حج کے موقعوں پر لاکھوں زائرین وہاں جمع ہوتے ہیں رمضان کے پورے ماہ مبارک میں خاص طور پر وہاں کا نور سمیٹنے کے حاجت مند جمع ہوتے ہیں سال کے ہر ماہ ہر ماہ کے ہر ہفتہ ہر ہفتہ کے ہر دن، ہر دن کے ہر گھنٹے اور ہر گھنٹے کے ہر لمحے وہاں طواف ہوتا ہے، پانچ وقت اذان اور نماز ہوتی ہے دنیا بھر کے ہر کونے میں بسے مسلمان دن میں پانچ بار اس کی جانب رخ کرکے نماز کا فریضہ ادا کرتے ہیں اب سے ہزاروں سال پہلے اس یاہ چٹانوں والی گھاٹی کی توقیر اور حرمت کی وجہ تھی۔ وہ یادگار ہے قربانی کی جو ایک باپ نے دی جس کی ایک ہی اولاد بڑی دعاﺅں کے بعد پیدا ہوئی ایک ماں کی ایک بیوی کی قربانی جس نے اپنے شوہر کی راہ میں اپنی متاع حیات کی قربانی دی ایک سعاد مند اولاد کی جس میں اپنے باپ کی قربانی کی خاطر اپنے گلے کو چھری پر رکھ کر کہا لبیک اللھہ لبیک میرے مالک میرے مولا میرے آقا لبیک۔
حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی پوری زندگی قربانیوں سے معمور ہے جب آتش نمرود کی قربانی جو کہ ان کی ذات کی قربانی تھی یہ قربانی اللہ کی رضا کے لئے اپنے آپ کو اپنی ذات کو وقف کر دینے کے لئے پھر ان کو اس چیز کی قربانی کے لئے تیار کیا گیا جس کی قربانی ان سے پہلے کسی نے نہ دی وہ تھی اپنی اولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے پہلے اس کو بھوک پیاس موسم کی شدت کے آگے پیش کردیا پھر جب حکم آیا اپنی اولاد کی قربانی خود اپنے ہاتھوں سے دو تو ایک لمحہ کے لئے پایائے استقلال میں لرزش نہیں آئی۔
حضرت خلیل اللہ نے اپنے جگر گوشہ کو جو اس وقت نوجوانی کی حدود میں داخل ہو رہے تھے ان کی عمر صرف تیراہ سال تھی کہا اے میرے جگر کے ٹکڑے مجھے بشارت ہوئی ہے کہ میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، تمہارا کیا ارادہ ہے، جواب ملا کہ آپ کو جو حکم ملا وہ بجا لائیں مجھے آپ ثابت قدم پائیں گے جب حضرت خلیل اللہ نے ان کو قربان گاہ پر لا کر لٹایا تو اس وقت نہ ان کا ہاتھ کانپا نہ زمین تھرائی نہ اس ماں نے روکا جو ان کے بچپن میں جب وہ نوخیز تھے پانی کی شدید پیاس میں تڑپ رہے تھے وہ دیوانہ وار دو پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑ رہی تھیں اللہ کو ان کا یہ عمل اس قدر پسند آیا کہ یہ حج کا ایک حصہ بنا دیا صدیوں سے یہ عمل عمرہ اور حج پر آنے والے زئارین حضرت حاجرہؑ کی یہ ہی سنت دہراتے ہیں۔
حضرت خلیل اللہ نے بڑے اطمینان سے اپنے جگر گوشہ کے ملقوم پر جھری رکھ دی قریب تھا کہ حضرت اسماعیلؑ ذبح ہوتے ایک آواز آئی تم نے خواب سچ کر دکھایا اس آواز نے حضرت اسماعیلؑ کو زبح ہونے سے بچا کر ایک دنبہ کو زبح کردیا اور حضرت اسماعیلؑ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
حج اور عمرہ اس قربانی کا ایک تسلسل کے ساتھ ایک مشق ہے یہ قربانی کسی وجود کی نہیں تھی بلکہ یہ قربانی ایک نفس کی تھی جو انسان پر حاوی ہو جائے تو شیطان ہو جائے، نفس پر قابو پالے تو اللہ کی برگزیدہ ہستی ہو جائے وہ ایک عمل کا ظاہر تھا جس کی بنیاد اس نیت پر ہوتی ہے جو انسان کے اند رکو صاف رکھتی ہے اس شیطان کو مدود بناتی ہے۔ جو بار بار انسان کو ورغلانے کی ترغیب دیتا ہے یہ عمل صرف ظاہری طریقوں پر چل کر مکمل کر دینے کا نام نہیں بلکہ یہ عمل اس باطن کی غمازی کرتا ہے جو کہ انسان کے اعمال کو بھی کنٹرول کرتا ہے اور اس کی روح کو بھی۔
ایثار قربانی صبر و استقامت اپنے اعمال کو شر سے بچانے کے لئے ہمارے مذہب نے مختلف طریقے اختیار کئے مگر ہمارے لوگوں نے جو ایمان والے کہلاتے ہیں ان تمام طریقوں کو فراموش کر دیا اس کے برخلاف جن کے پاس ایمان نہیں ہے وہ ان طریقوں کو اختیار کرکے کامیابیوں کی راہ میں لگے دنیا کی تمام سہولتوں سے بہرہ مند ہورہے ہیں اگر ہم بھی ان طریقوں کو اختیار کریں تو دنیا میں ظفرمند ہوں اور آخرت میں بھی جزا پائیں ہم علم کی سب سے بڑی کتاب پڑھنے کے باوجود اس پر عمل پیرا ہونے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے زوال کے اندھے غار میں گرتے چلے جارہے ہیں۔
اس کے برخلاف وہ قومیں جنہیں ہم کافر قرار دے رہے ہیں ان ہی طریقوں پر عمل پیرا ہو کر دنیا کی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں، نہ معلوم آخرت ہم کہاں ہوں گے وہ کہاں؟ انہوں نے اپنے اندر کے شیطان کو قابو کرکے غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تکمیل کردی ہے ہمیں بھی ہمارے اندر کے جو شیطان موجود ہیں انہیں روزانہ کنکریاں مار کے اپنے سے دور کرنے کی شدید ضرورت ہے جس طرح ہمارے اکابرین نے اس شیطان کو اپنے سے دور کرنے کے لئے اس پر کنکریاں برسا کر ایسی مثال قائم کی جس کی سنت پر ہر سال لاکھوں حاجی حج کے موقع پر ادا کرتے ہیں ہم جیسے مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ اپنے اپنے شیطانوں کو بھی دور کرنے کے لئے نیک اعمال کی کنکریوں سے ختم کریں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کریں تاکہ جو عذاب ہے وہ بھی ختم ہو سکے۔
آج جب کے کووڈ کی وجہ سے حج کے ارکان میں شرکت کو محدود کردیا گیا ہے اور صرف ساٹھ ہزار مسلمانوں کو ہی حج کی سعادت حاصل کرنے ی اجازت ملی ہے اس لئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ حج کے ارکان کو اپنی ذات میں ہی ادا کرکے سنت ابراہیمی کی سب سے بڑے رکن کو تکمیل کریں وہ اس طرح کہ وہ اپنے اندر کے شیطان کی رمی کرکے اس کا موثر تدارک کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا دوبارہ نزول شروع ہو جائے ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ رحمتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں اپنے تزکیہ نفس کی تکمیل کے لئے اندر کے شیطان کے خلاف جہاد کا اعلان کردیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی تکمیل کریں اس کی نعمتوں سے دوبارہ سرفراز ہو سکیں۔
اے رحمت باری کے خزانے والے
اسلام پہ ہنستے ہیں زمانے والے
ہوا ہے مسلماں کا مسلماں دشمن
اے دشمنوں کو دوست بنانے والے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں