آپ اپنے ا طراف نظر دوڑائیے جا بجا یہ انتباہی نوٹس دیکھنے کو ملیں گے: ” تمباکو نوشی منع ہے“، ” اوور ٹیکنگ منع ہے “، ” یہاں فوٹو گرافی منع ہے“، ” ہارن بجانا منع ہے “، ” یہاں مچھلی پکڑنا منع ہے“، تندور اور عوامی چائے خانون اور ہوٹلوں میں جا بجا لکھا ملے گا ” فضول بیٹھنا منع ہے “…… نہیں لکھا ملے گا تو یہ ” خبردار: مایوسی پھیلانا منع ہے “۔
یہ ایک بہت توجہ طلب موضوع ہے کیوں کہ یہ بد قسمتی بھی شاید ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے کہ ا±ٹھتے بیٹھتے اپنے ہی ملک کو ب±را بھلا کہتے اور مایوسی پھیلاتے ہیں۔ اِس کام میں کیا عوام، کیا خواص، کیا پیشہ ور کیا مزدور، کیا اساتذہ اور سیاستدان سب ہی شریک ہیں۔ ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بھی پاکستانی ہیں جو 43 سال سے ملک سے باہر رہے پھر بھی فخریہ کہتے ہیں ” ہا ں میں پاکستانی ہوں “۔
افسوس کا مقام ہے کہ وہ سرکاری ملازم جنہوں نے ایک لمبی مدت دفاتر میں گزاری ……زندگی اچھی بری جیسی گزاری لیکن اپنے دل میں مسلسل کینہ رکھا ہوا ہے۔ اپنے ہی ملک کو برا بھلا کہنا فیشن کے طور عادت ہی بنا ڈالی۔ تنخواہیں لیں، ریٹائرمنٹ پر ایک معقول رقم لے کر اب پینشن بھی وصول کر رہے ہیں، وہ بھی اسی کی گردان کرتے رہتے ہیں کہ: ” پاکستان تو رہنے کی جگہ ہی نہیں “ !! اگر یہ واقعی
ا پنے قول میں سچے تھے تو وہ ملک سے چلے کیوں نہیں گئے؟ یا انہوں نے پاکستان کو رہنے کے قابل بنانے کے لئے اپنے طور پر کیا، کیا؟
مشرقِ وسطیٰ میں رہنے والی اکثریت سر بھی پٹخ لے، ا±س کو تو ا±ن ممالک کی شہریت کبھی بھی نہیں مل سکتی۔ ا±ن کے سامنے دو ہی راستے ہیں: ایک یہ کہ جب ا±ن کے کفیل انہیں اپنے ہاں سے جانے کا کہیں تو وہ واپس پاکستان چلے جائیں۔دوسرا یہ کہ وہ مملکتِ کنیڈا یا آسٹریلیا نقلِ مکانی کر کے کچھ عرصے بعد وہاں کی شہریت لے لیں۔کیوں کہ یورپ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جانا اب آسان نہیں رہا۔ ہاں کچھ لوگ ترکی بھی جا رہے ہیں! مگر یہ ر جحان نسبتاً کم ہے۔
خاکسار نے اپنی پہلی ملازمت افریقہ میں کی۔ افریقہ خود بہت بڑا برِ اعظم ہے۔میرا قیام وسطی اور مشرقی افریقہ میں رہا۔پھر قسمت برادر ملک ترکی، ہالینڈ، برطانیہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ لے گئی۔ افریقہ میں کینیا کے دار الحکومت نیروبی اور تنزانیہ کے پایہ تخت دار السلام میں دو طرح کے بہت سے پاکستانی رہتے ہیں۔ ایک وہ جن کے دادا پردادا یہاں آ کر آباد ہوئے۔ اِن میں ڈاکٹر، کالجوں یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور تجارت پیشہ افراد شامل ہیں۔ دوسرے وہ جو پاکستان میں ہی پلے بڑھے پھر قسمت آزمائی کو یہاں آ گئے۔شادیاں بھی کر لیں بچے بھی ہو گئے۔ اسی طرح ہالینڈ کے بڑے شہر ایمسٹرڈیم اور برادر ملک ترکی کے شہر ا ستنبول میں رہنے والے پاکستانیوں سے ملاقات کی۔برطانیہ کے شہر لیسٹر شائر اور لندن میں بہت سے پاکستانیوں سے بات چیت کی۔ میرا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہر شکاگو، نیو یارک، نیو جرسی، ریاست میری لینڈ، ریاست جارجیا، ریاست الاباما، فلوریڈا، شمالی اور جنوبی کیرو لائنا کے کئی بڑے چھوٹے شہر اور ایک لمبا عرصہ ریاست ویسٹ ورجینیا میں قیام رہا۔
میں نے یہاں برسوں سے رہنے اور ” س±پر ٹیکس “ دینے والے پاکستانی ڈاکٹر، تاجر اور پروفیسروں، نئے آنے اور ملازمت کرنے والے اور پاکستانی طلباءسے بات چیت کی۔افسوس کا مقام ہے کہ اِن کی اکثریت بھی اسی مرض میں مبتلا پائی گئی۔آج ترکی، برطانیہ، کینیا، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دیگر ممالک میں اللہ کے فضل سے جو پاکستانی خود وہاں کے مقامیوں سے زیادہ کھا کما رہے ہیں ذرا اس بات پر ہی غور کر لیں کہ وہ یہاں اس ملک میں اس مقام تک پہنچے کیسے؟ یہاں آنے کی بنیادی قانونی دستاویز کس ملک کی تھیں؟ اگر وہ ڈاکٹر پروفیسر ہیں تو ان کی بنیادی ڈگریاں کہاں سے ملیں؟ پھر ذرا وہ اپنے ماضی کی فلم ریوائنڈ کر کے دیکھیں کہ اِن جیسے اور ان سے زیادہ قابل ڈاکٹر، پروفیسر اور بزنس مین جو ا±ن کے کالج یونیورسٹیوں میں تھے اور وہ اب بھی پاکستان ہی میں ہیں …… ا±نہیں وہاں قسمت آزمائی کا موقع نہیں ملا۔ وہ تو چلیں تھوڑی دیر کو مان لیں کہ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں …… آپ کیوں کرتے ہیں؟ پاکستان نے آپ کو شناخت دی۔پاکستانی پاسپورٹ کو آپ عزت دیجئے جس کی بدولت آج آپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ کی شہریت لئے اِترا رہے ہیں گویا ہفت اقلیم حاصل ہو گئی۔آپ خود بتائیے کہ اتنا سب حاصل ہونے کے بعد بھی پاکستان کو برا بھلا کہنے کا کیا جواز ہے؟ آپ کو تو اپنے وطن کا احسان ماننا چاہیے جس نے آج آپ کو یہ مقام دیا!!
اِن ممالک میں جہاں بھی (اس قبیل کے) چار پاکستانی بیٹھتے ہیں وہاں یہ بات گھوم پھر کر ضرور کی جاتی ہے کہ ” وہاں کا اب بھی فرسودہ نظام ہے ……“۔ پھر اس سے آگے جس کا جو شعبہ ہوتا ہے اسی کو بنیاد بنا کر بات کو آگے بڑھا تا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس فرسودہ نظام کا نوحہ تو آپ بہت پڑھ چکے …… آپ نے اس فرسودگی کو ختم کرنے کے لئے کیا کیا؟
غیر ممالک میں مستقل رہنے والے پاکستانیوں کو اکثر میں نے اپنے پیاروں کو تابوت میں بند کر کے پاکستان بھیجتے ہوئے دیکھا۔صاحبِ تابوت دونوں طرح کے تھے: پاکستان کو ا±ٹھتے بیٹھتے ب±را بھلا کہنے، ہر وقت پاکستان کے مستقبل سے مایوسی کی باتیں کرنے والے اور اس کے برعکس بھی۔ میں نے ایسے تمام صاحبِ تابوت کے قریبی عزیزوں سے پوچھا: ” جناب! آپ انہیں یہاں کیوں نہیں دفن کرتے؟“ جواب ملاحظہ ہو: ” اس لئے کہ دن بھر میں کوئی تو قبرستان سے گزرتے ہوئے اجتماعی مغفرت کی دعا کر ہی جائے گا ……“بات ہی ختم ہو گئی۔ اب میں نے ا±س تابوت والے کے عزیز سے یہی سوال کیا: ” جناب! یہ حضرت تو ا±ٹھتے بیٹھتے کہتے تھے کہ یہ تو رہنے کی جگہ ہی نہیں تو اب پھر آپ لوگ نا قابلِ رہائش جگہ پر تا قیامت رہنے کے لئے کیوں دھکیل رہے ہیں؟“ تو جواب آیا: ” یہ ان کی وصیت تھی“۔گویا ایسے قبیل کے لوگوں کے نزدیک پاکستان زندہ لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہاں البتہ …… م±ردہ ہو کر ایک مغفرت کی دعا کی بھیک کی خاطر ا±س ملک میں آ گئے جو سرے سے رہنے کے قابل ہی نہیں تھا۔
آج کا کالم کوئی شکایت نہیں۔ بقول شاعر: ” عرض ہے یہ گلہ نہیں ……“ البتہ ایک توجہ طلب موضوع ہے۔ خاکسار کے خیال میں جب پاکستان کی سینٹ میں توجہ دلاو¿ نوٹس پر بحث ہو سکتی ہے تو اِس توجہ طلب بات پر کہ پاکستان میں مایوسی پھیلانے کے خلاف بھی ایک توجہ دلاو¿ نوٹس پر بحث ہونا چاہیے کہ ملک میں، اور بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اور جو ایسا نہیں کرتے وہ کیوں نہیں کرتے؟ اس پر ایک جامع تحقیق ہونا چاہیے۔
153