صدر پاکستان کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھجوائے گئے ریفرنس کے خلاف دائر پٹیشن کا فیصلہ 13 ماہ کی طویل سماعت کے بعد سنا دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے دس رکنی فل بنچ نے جسٹں عطاءعمر بندیال کی سربراہی میں صدر کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس اور سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کردہ شوکاز نوٹس کو کالعدم قرار دے دیا ہے لیکن قاضی کی اہلیہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ساٹھ دنوں کے اندر ایف بی آر سے تعاون کرتے ہوئے اپنی منی ٹریل پیش کرے اور ایف بی آر تمام دستاویزات کے ساتھ اپنی حتمی رپورٹ پچھتر دنوں کے اندر سپریم جوڈیشل کونسل کو پیش کرے۔ اس کے بعد کونسل اس کے اگلاءلائحہ عمل کو طے کرے گی۔
صدارتی ریفرنس خارج ہونے کے بعد بھی احتساب کی تلوار قاضی فائز کے سر پر لٹک رہی ہے اور اب معاملات اور بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں کیوں کہ بیگم قاضی عیسیٰ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کا عذر پیش نہ کریں اور ایف بی آر سے مکمل تعاون کرتے ہوئے اپنے تمام کاغذات انہیں مہیا کریں اور پوری منی ٹریل کی تفصیلات جمع کروائیں جو کہ بہت مشکل کام ہے حالانکہ قاضی فائز عیسیٰ کی فیملی اور ان کی اہلیہ کی فیملی کی مالی حیثیت کو اگر پرکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ متمول خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے لئے سات لاکھ پاﺅنڈ جو کہ تقریباً سات کروڑ روپوں کے برابر بنتے ہیں، کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ اس سرمایہ کا ذریہ بتایا جائے اور پھر بینکنگ چینل سے اس رقم کی لندن منتقلی کی تمام تفصیلات دی جائیں۔ صرف اتنی سی بات ہے مگر یہ سوال ہے بہت مشکل۔ اس کی بڑی سادہ سی وجہ ہے کہ ہمارے اجتماعی قومی مزاج میں یہ بات شامل نہیں ہے کہ اپنے آمدنی، اخراجات اور ٹیکسوں کے معاملات کو صحیح طریقے سے مرتب کیا جائے۔
ہم ایک لاپرواہ قوم ہیں، کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم سے اس ضمن میں پوچھا جا سکتا ہے، اگر سرینا قاضی کا شوہر جج نہ ہوتا تو شاید اتنی معمولی سی رقم پر کوئی مضطرب نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی ان سے پوچھتا کہ بی بی یہ رقم کہاں سے آئی ہے اور بیرون ملک کیسے گئی ہے؟ یہ پوچھ گچھ قاضی فائز عیسیٰ کے پبلک آفس ہولڈر ہونے کی وجہ سے کی جارہی ہے جب کہ قاضی عیسیٰ واضح کر چکے ہیں کہ اس رقم سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ ان کی اہلیہ کو وراثتی جائیداد میں حصہ کے نتیجہ میں ملی ہی اور اس کے علاوہ وہ کراچی میں امریکن اسکول میں ٹیچنگ بھی کرتی رہی ہیں لہذا یہ ان کی اپنی دولت ہے اس میں جج صاحب کی کمائی شامل نہیں ہے۔
اس پٹیشن کی چالیس سے زائد سماعتیں ہوئی ہیں اور اس دوران پٹینز کے وکیل منیر اے ملک، وکلاءتنظیموں اور تمام عمران خان مخالف سیاسی جماعتوں کے وکلاءکا ایک بریگیڈ عدالت میں موجود رہا ہے۔ منیر اے ملک نے دوسرے جو دلائل دیئے سو دیئے لیکن ان کا مرکزی نقطہ بار بار یہی تھا کہ یہ ریفرنس عدلیہ پر حملہ ہے اور بدنیتی پر مبنی ہے اور (ARU) ایسٹ ریکوری یونٹ جس نے ان جائیدادوں کا پتہ چلایا ہے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کو ججوں کی جاسوسی کرنے کا اختیار ہے۔ ان دلائل کے نتیجہ میں ان کا اسرار تھا کہ ریفرنس اور شوکاز نوٹس کالعدم قرار دیے کر معاملہ ختم کردیا جائے اور بدنیتی کو بنیاد بنا کر حکومت وقت کو تحلیل کردیا جائے جو کہ صریحاً غلط اور احمقانہ التجا تھی۔ منیر اے ملک کی قیادت میں وکلاءتنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں کے وکلاءکے اکسانے پر ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ یا تو سپریم کورٹ ایکشن لیتے ہوئے مذکورہ بالا احکامات جاری کرے وگرنہ وکلاءتنظیموں کی طرف سے احتجاج کروانے کی سازش تیار تھی اور ان کے دماغ میں جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرانے کی تحریک ماڈل کے طور پر سامنے تھا۔
میں یہاں ریاست کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے نہ صرف پٹیشزن کے وکلاءکی فوج کا مقابلہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دس ججوں کی طرف سے کئے گئے تمام سوالات کا بڑے مدبرانہ پیشہ ورانہ اور تحمل سے جواب دیا۔ بلاشبہ فروغ نسیم کا موقف سپریم کورٹ نے ٹیکنیکل بنیادوں پر تسلیم کیا اور قاضی فائز کو ایک طرف ریلیف دیا تو دوسری طرف ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف ریفر کردیا۔ قانون کا ادنیٰ طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ اب قاضی فیملی کے لئے بہت مشکل مرحلہ شروع ہو گیا ہے جہاں انہیں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ منی ٹریل ثابت کرنی ہے جو کہ بہت مشکل کام ہے۔
پانامہ کیس کی طویل سماعتوں میں شریف فیملی سے ایک ہی سوال پوچھا گیا تھا کہ لندن میں خریدی گئی جائیدادوں کی منی ٹریل دے دیں تو معاملہ پہلے دن ہی ختم ہو جائے گا مگر ان کی طرف سے آج تک منی ٹریل نہیں دی جا سکی جس کی سزا شریف فیملی بھگت رہی ہے اور پوری دنیا میں رسوا ہو چکی ہے۔ اس طرح مجھے خدشہ ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ منی ٹریل نہیں دے سکے گی حالانکہ یہ معمولی سی رقم ہے اور اگر وہ ہمت اور کوشش کریں تو شاید کامیاب ہو جائیں مگر آج تک اور اس کو ایف بی آر میں دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ ثاب کرنے تک جسٹس صاحب کی اتنی رسوائی ہو چکی ہو گی کہ وہ حق پر ہو کر بھی منہ چھپاتے پھریں گے۔ ابھی فیصلہ آئے کچھ دن ہوئے ہیں لیکن میڈی اپر جج صاحب کا پوسٹ مارٹم شروع ہو چکا ہے، ایسے ایسے غیر معروف تجزیہ نگار تبصرے کررہے ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میری نظر میں قاضی فائز عیسیٰ اگر یہ مقدمہ جیت بھی جاتے ہیں پھر بھی وہ عوام الناس کی نظروں سے گر جائیں گے لہذا بہتر آپشن یہی ہے کہ اس معاملہ کو یہی ختم کرتے ہوئے استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں کیوں کہ بالاخر یہی ہونا ہے۔
362